Jis Restaurant Mein Halal Aur Haram Khane Hon Us Ke Order Book Karna Kaisa ?

جس ریسٹورنٹ میں حلال و حرام کھانے ہوں ،اس کے آرڈر بُک کرنا کیسا؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:  Pin-7112

تاریخ اجراء: 20جمادی الاولی1444ھ15دسمبر 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس  مسئلے کے بارے میں کہ ہم نے ایک کال سنٹر اوپن کیا ہے، ہمارے کام کی نوعیت یہ ہے کہ ہم  یورپ میں موجود ہوٹل، ریسٹورنٹ اور پیزا برگر والوں سے رابطہ کرتے ہیں اور انہیں آفر کرتے ہیں کہ آپ کے ریسٹورنٹ سے جو بھی کسٹمر آرڈر دیکر کھانا منگوانا چاہے، ان کی کالز ہم ریسیو کریں گے، کال ریسیو کر کے ان کا آرڈر وصول کرنا، پھر کسٹمر کا نام، فون نمبر، ایڈریس اور دیگر ضروری معلومات لے کر ہم آپ کو بھیج دیں گے، آپ اس کے آرڈر کے مطابق کھانا تیار کر کے وہاں سے ڈیلیور کر دیں، یوں آپ کی کالز سننے اور کسٹمر سے بات کرنے کی سر دردی ختم ہو جائے گی، بس ہماری جانب سے  آپ کو مکمل تفصیل کےساتھ آرڈر وصول ہو گااور آپ کا کام آسان ہو جائے گا، پھر اس کام کے بدلے ہم ان سے یومیہ یا ماہانہ اجرت مقرر کر لیتے ہیں کہ اتنے گھنٹے ہمارے افراد آپ کے ریسٹورنٹس میں آنے والی کالز سننے کے لیے تیار رہیں گے، پھر اس وقت میں کالز آئیں یا نہ آئیں، بہر حال ہر روز کی جداگانہ یا پھر ماہانہ اتنی اجرت دینی ہو گی، تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

   نوٹ: سائل کی مزید وضاحت کے مطابق آرڈر وصول کرنے کا طریقہ کار یہ ہو گاکہ اگر کوئی کسٹمر آرڈر کرنا چاہے، تو اپنے ملک میں وہ لوکل کال ہی کرے گا، لیکن نیٹ کے ذریعے اس کی کال ہمیں پاکستان میں موصول ہو گی، یہاں کال ریسیو کر کے اس کے آرڈر کی تفصیل لکھیں گے، مثلاً: پیزا ہے، تو کن چیزوں پر مشتمل ہونا چاہئے، وغیرہ وغیرہ، پھر دیگر ضروری معلومات لے کر کمپیوٹر میں درج کر کے پرنٹ کے آپشن پر کلک کریں گے، تو بذریعہ سافٹ وئیر یورپ میں اس ریسٹورنٹ کے متعلقہ اسٹاف کے پاس وہ آرڈر پرنٹ آؤٹ ہو جائے گا، پھر ریسٹورنٹ اسٹاف مطلوبہ چیز تیار کر کے وہیں سے کسٹمر کو ڈیلیور کر دے گا۔ نیز چونکہ ہمارا کام یورپ کے ریسٹورنٹس میں ہی ہوتا ہے اور ہم فقط وہیں کے آرڈر لیتے ہیں ، تو وہاں ریسٹورنٹس میں حرام چیزیں مثلاً:خنزیر کا گوشت اور شراب وغیرہ بھی ہوتی ہیں، تو جب ان کا آرڈر آئے گا، تو ہمیں ان کا آرڈر بھی لے کر بھیجنا پڑے گا۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں آپ کا یورپ کے ریسٹورنٹس کو یہ سروس فراہم کرنا ناجائز و حرام اور گناہ ہے۔ اس مسئلہ کی تفصیل جاننے سے قبل تمہیداً چند باتیں ذہن نشین کرنی ہوں گی:

   ٭ دین اسلام میں جن چیزوں کا کھاناپینا حرام قرار دیا گیا ہے، ان کا کھانا پینا مسلمان اور کافر، دونوں کے لیے حرام ہے۔ مسلمان کے لیے حرام ہونا تو واضح ہے اور کافر کو اس لیے کہ راجح قول کے مطابق کفار بھی فروعات (شرعی احکام) کے مُکَلَّف ہیں، ان پر بھی اِن چیزوں سے بچنا لازم ہے، لہٰذا کفار کے لیے بھی اِن کا کھانا پینا حرام ہے۔

   ٭ جس چیز کاکھانا پینا حرام ہے، اسے کھانے پینے کے لیے کسی کو فراہم کرنا یا فراہم کرنے میں کسی بھی طرح سے تعاون کرنا بھی حرام ہے، کیونکہ یہ گناہ میں معاونت کی صورت ہے، جس سے اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں واضح طور پر منع فرمایا ہے۔

   ٭ کسی چیز کے حرام ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ خنزیرکے گوشت یا شراب پر ہی مشتمل ہو، بلکہ حرمت کی دیگر وجوہات بھی ہو سکتی ہیں، مثلاً:مشینی ذبیحہ (ایسا جانور جسے مشین کے ذریعے ذبح کیا گیا ہو کہ ذبح شرعی کی شرائط نہ پائے جانے کی وجہ سے یہ مردار کے حکم میں ہوتا ہے، لہذا) اس کا کھانا بھی حرام ہے۔ یونہی الکحل پر مشتمل اشیاء (کہ سوائے ادویات کے ان کا کھانا پینا بھی حرام و ناجائز ہے۔)

   اس تمہید کے بعد جواب کی تفصیل یہ ہے کہ آپ سے رابطہ کرنے والا کسٹمر کال کے ذریعے حلال و حرام کسی بھی چیز کا آرڈر دے سکتا ہے اور  آپ کی ذمہ داری ہو گی کہ آپ اس کا آرڈر وصول کر کے متعلقہ ریسٹورنٹ کو بھیجیں تاکہ وہ چیز کسٹمر کو ڈیلیور کی جا سکے،جبکہ تمہیدی گفتگو سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ مسلمان ہو یا کافر، انہیں کھانے پینے کے لیے حرام و ناپاک چیزیں(مثلاً: خنزیر کا گوشت، مشینی ذبیحہ، شراب، الکحل یا ان کی آمیزش والی اشیاء وغیرہ وغیرہ )فراہم کرنا حرام اور گناہ ہے ، تو آپ کا کسٹمرز سے حرام چیزوں کا آرڈر لے کر ریسٹورنٹ اسٹاف کو فراہم کرنا ان کے گناہ میں تعاون کرنا ہے اور جس بھی نوکری میں ناجائز و حرام کام یا اس میں تعاون کرنا شامل ہو، شریعتِ اسلامیہ کی رُو سے ایسی نوکری کرنا ہی حرام ہوتا ہے۔

   اس کے جواز کی صورت یہ ہے کہ آپ کسی ایسے ریسٹورنٹ سے ایگریمنٹ کریں، جس میں سو فیصد حلال چیزیں ہی ہوتی ہیں یا کسی ریسٹورنٹ کی طرف سے فقط حلال چیزوں کا آرڈر ہی وصول کریں، تو آپ کے لیے اپنی سروس فراہم کرنا، جائز ہو گا، جبکہ ممانعت کی کوئی اور وجہ نہ ہو۔

   مذکورہ تفصیل کے متعلق جزئیات درج ذیل ہیں:

شراب اور خنزیر کی حرمت:

      اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ترجمہ کنز العرفان :’’اے ایمان والو!شراب اور جوا اور بت اور قسمت معلوم کرنے کے تیر ناپاک شیطانی کام ہی ہیں، تو ان سے بچتے رہو کہ تم فلاح پاؤ۔‘‘(پارہ7، سورۃ المائدہ، آیت90)  

   ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: ﴿حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ ﴾ ترجمہ:تم پر حرام ہے  مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جس کے ذبح میں غیر خدا کا نام پکارا گیا اور و ہ جو گلہ گھونٹنے سے مرے اور بے دھار کی چیز سے مارا ہوا ۔‘‘(پارہ 6،سورۃ المائدہ ،آیت 3)

      حدیث پاک میں شراب سے متعلق دس افراد پر لعنت فرمائی گئی ہے۔ چنانچہ جامع ترمذی میں ہے:’’ لعن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فی الخمر عشرۃ: عاصرھا ومعتصرھا وشاربھا وحاملھا والمحمولۃ الیہ وساقیھا وبائعھا واٰکل ثمنھا والمشتری لھا والمشتراۃ لہ‘‘ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کے معاملے میں دس بندوں پر لعنت فرمائی ہے، جو شراب کے لیے شیرہ نکالے،جو شیرہ نکلوائے،جو شراب پئے،جو اٹھا کر لائے،جس کے پاس لائی جائے،جو شراب پلائے،جو بیچے،جو اس کے دام کھائے،جو خریدے اور جس کے لیے خریدی جائے۔ (جامع ترمذی، ابواب البیوع، جلد 1، صفحہ 242، مطبوعہ  کراچی)

      ایک اور حدیث پاک میں حضرت سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرمایاکہ:’’ انه سمع رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم عام الفتح وهو بمكة، يقول: ان اللہ ورسوله حرم بيع الخمر والميتة والخنزير والاصنام‘‘ ترجمہ: انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے سال فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ اور اس کے رسول نے شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کی بیع کو حرام کر دیا ہے۔(جامع ترمذی، باب ما جاء فی بیع جلود المیتۃ والاصنام، جلد 2، صفحہ 582، مطبوعہ بیروت(

مشینی ذبیحہ کی حرمت:

   اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَلَا تَاۡکُلُوۡا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِاسْمُ اللہِ عَلَیۡہِ وَ اِنَّہٗ لَفِسْقٌ﴾ترجمہ کنزالایمان:’’اور اُسے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا اور وہ بے شک حکم عدولی ہے۔‘‘ (پارہ 8، سورۃ الانعام،آیت121)

   صدر الشریعہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ذبح کی شرائط ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ ذبح سے جانور حلال ہونے کے لیے چند شرطیں ہیں:(۱)ذبح کرنے والا عاقل ہو۔  (۲) ذبح کرنے والا مسلم ہو یا کتابی۔  (۳) اﷲ عزوجل کے نام کے ساتھ ذبح کرنا۔ (۴)خود ذبح کرنے والا اﷲعزوجل کا نام اپنی زبان سے کہے۔ (۵)نام الٰہی (عزوجل)لینے سے ذبح پر نام لینا مقصود ہو۔ (۶)ذبح کے وقت غیر خدا کا نام نہ لے۔ (۷)جس جانور کو ذبح کیا جائے وہ وقت ذبح زندہ ہو، اگرچہ اوس کی حیات کا تھوڑاہی حصہ باقی رہ گیا ہو۔‘‘(ملتقطاً از بھار شریعت، حصہ 15، صفحہ 313 تا 314، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   مفتی نظام الدین رضوی صاحب مشینی ذبیحہ کے متعلق تفصیلی کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’مشین کے ذریعہ جو جانور ذبح ہوتے ہیں، وہ چاروں مذاہب (حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی) میں حرام ہیں، ان کا حکم شرعاً وہی ہے، جو مردار کا ہے، کیونکہ جانور کے حلال ہونے کے لیے بالاتفاق یہ شرط ہےکہ ذابح صاحبِ عقل و شعور ہو، نیز مسلم یا کتابی ہو، حالانکہ مشینی نظام ذبح میں ذابح کوئی صاحب عقل و شعور مسلم یا کتابی نہیں ہوتا، بلکہ محض ’’بجلی‘‘ ہوتی ہے ، جو یقیناً ان تمام اوصاف سے خالی ہے۔‘‘(مشینی ذبیحہ، صفحہ 31، مکتبہ برکات المدینہ، کراچی)

   ایک اور جگہ رقم طراز ہیں:’’کھلی ہوئی بات ہے کہ مشین صاحبِ عقل نہیں، مسلم یا کتابی نہیں، بسم اللہ پڑھنے کی اہل نہیں، اس میں قصد و ارادہ بھی نہیں، اس لیے یہ ذبح ان تمام شرائط سے خالی ہے، جو ذابح میں ضروری ہیں، لہذا باجماع ائمہ اربعہ مشینی ذبیحہ حرام ہے۔‘‘(مشینی ذبیحہ، صفحہ 46، مکتبہ برکات المدینہ، کراچی)

   الکحل آمیز اشیاء کی حلت و حرمت کے متعلق دار الافتاء اہلسنت سے متعدد فتاوی جاری ہو چکے ہیں، اس کی تفصیل جاننے کے لیے دار الافتاء اہلسنت کی کسی بھی برانچ سے جداگانہ فتوی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

مسلم و غیر مسلم کو  کھانے پینے کے لیے حرام اشیاء فراہم کرنا:

   مسلمانوں کی طرح کفار بھی فروعات کے مکلّف ہیں، لہذا ان کے حق میں بھی شراب اور خنزیر کی حرمت ثابت ہے۔ بدائع الصنائع میں ہے:’’حرمۃ الخمر والخنزیر ثابتۃ فی حقھم کما ھی ثابتۃ فی حق المسلمین،لانھم مخاطبون بالحرمات وھو الصحیح عند اھل الاصول‘‘ترجمہ:شراب اور خنزیر کی حرمت غیر مسلموں کے حق میں بھی بالکل اسی طرح ثابت ہے ،جس طرح مسلمانوں کے حق میں ثابت ہے، کیونکہ وہ بھی محرمات کے مکلف ہیں اور یہی اہلِ اصول کے نزدیک صحیح ہے۔(بدائع الصنائع، کتاب السیر، جلد 6، صفحہ 83، مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوی رضویہ میں ہے:’’صحیح یہ ہے کہ کفار بھی مُکَلَّف با لفروع ہیں۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 16، صفحہ 382، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   کفار کو شراب پلانے کے متعلق ہدایہ شریف میں ہے :’’ولا ان یسقی ذمیا ولا ان یسقی صبیا للتداوی والوبال علی من سقاہ‘‘ ترجمہ:ذمی اور بچہ کو دوا کے لیے (بھی )شراب پلانا ،جائز نہیں اور اس کا وبال پلانے والے پر ہو گا ۔(ھدایہ، کتاب الاشربہ، جلد 4، صفحہ 503، مطبوعہ  پشاور)

   صدر الشریعہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں :’’ کافر یا بچہ کو شراب پلانا بھی حرام ہے،اگرچہ بطورِ علاج پلائے اور گناہ اسی پلانے والے کے ذمہ ہے ۔بعض مسلمان انگریزوں کی دعوت کرتے ہیں اور شراب بھی پلاتے ہیں، وہ گنہگار ہیں ،اس شراب نوشی کا وبال انہیں پر ہے۔‘‘(بھار شریعت، جلد 3، صفحہ 672، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

حرام کام میں تعاون کرنا:

   اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے﴿وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ﴾ترجمہ: اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔‘‘(پارہ 6،سورۃ المائدہ، آیت 2)

   اس آیت کے تحت امام ابو بکر احمد الجصاص علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:”نهي عن معاونة غيرنا على معاصی اللہ تعالى“ترجمہ: آیت کریمہ میں اللہ تعالی کی نافرمانی والے کاموں میں دوسرے کی مدد کرنے سے منع کیا گیا ہے۔(احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 429، مطبوعہ کراچی)

حرام پر مشتمل نوکری کی حرمت:

علامہ کمال الدین المعروف بابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’الاجارہ علی ما ھو طاعۃ او معصیۃ، لا تجوز‘‘ ترجمہ: کسی نیکی (سوائے مستثنیات کے) یا گناہ کے کام کی نوکری جائز نہیں۔(فتح القدیر، فصل فی البیع، جلد 10، صفحہ 60، مطبوعہ  کوئٹہ)

سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’وہ جس میں خود ناجائز کام کرنا پڑے، ۔۔۔ ایسی ملازمت خود حرام ہے، اگرچہ اس کی تنخواہ خالص مالِ حلال سے دی جائے۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 19، صفحہ 515، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   موسوعہ فقہیہ کوییتہ میں ہے:’’اتفقوا علی انہ لا یجوز للمسلم ان یؤجر نفسہ للکافر لعمل لا یجوز لہ فعلہ کعصر الخمر ورعی الخنازیر وما اشبہ ذلک‘‘ ترجمہ: فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسلمان کا کافر کے پاس ایسے کام کے لیے اجیر ہونا ، جائز نہیں جو کام اس کے لیے شرعاً جائز نہ ہو، جیسے شراب (کے لیے انگور) نچوڑنا، خنزیروں کو چرانا اور اسی طرح کے دیگر ناجائز افعال۔‘‘ (موسوعہ فقھیہ کویتیہ، جلد 19، صفحہ 45، مطبوعہ کویت)

   صدر الشریعہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا کہ دو مسلمان ایسے ہوٹل میں ملازم ہوئے کہ جس میں خنزیر کا گوشت پکتا تھا اور بھی ہر قسم کا گوشت پکتا تھا۔ ان دونوں میں سے ایک کا کام ڈھکی ہوئی رکابی اٹھا کر دوسرے مسلمان کو دینا اور دوسرے کا کام میز پر رکھنا تھا، لیکن دونوں کو علم نہ تھا کہ اس ڈھکی ہوئی رکابی میں کیا ہے، تو اب ان دونوں کے حق میں کیا حکم ہے؟ تو آپ علیہ الرحمۃ نے جواباً ارشاد فرمایا: ”جبکہ یہ معلوم تھا کہ اس ہوٹل میں خنزیر کا گوشت پکتا ہے اور ان دونوں کے متعلق یہ کام تھا کہ کھانا میز تک پہنچائیں، تو ایسے ہوٹل میں انہیں ملازمت ہی نہ چاہئے تھی، توبہ کر کے برادری میں شامل ہو جائیں۔ حدیث میں ہے: التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ۔‘‘ (فتاوی امجدیہ، جلد 3، صفحہ 270 تا 271، دار العلوم امجدیہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم