Music Wali Jagah Naukri Karna Ya Aisi Gari Mein Safar Karna kaisa ?

 

جس جگہ میوزک چلتا ہو، وہاں نوکری کرنا یا ایسی گاڑی میں سفر کرنا کیسا ؟

مجیب: محمد عرفان مدنی

مصدق:مفتی  محمدقاسم عطاری

فتوی نمبر: GRW-1385

تاریخ اجراء: 03صفرالمظفر1446 ھ/10اگست 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کسی ایسے بازار ، شاپنگ مال  یادفتر میں نوکری کرنا یا ایسی بس ، کوچ یا جہاز میں سفرکرنا،جہاں  میوزک چلتا  رہتا  ہو،اس کا کیا حکم ہے؟نیز ایسی جگہوں پر خریداری کے لیے جانا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بلاضرورت میوزک اورگانے باجے وغیرہ غیرشرعی آوازیں اورکلام سنناشرعاناجائزوگناہ ہے ، لیکن اگراپنی کسی دینی یادنیاوی ضرورت پوری کرنےمیں ان چیزوں سے  اس حدتک کاواسطہ پڑے کہ ان کوسنے بغیراپنی ضرورت پوری کرنا ، ناممکن یاحددرجہ دشوارہوجائے ،توایسی صورت میں ان ناجائزاُمورکی طرف توجہ کیے بغیر،ان سے لطف اندوزہوئے بغیر،ان کودل میں بُراجانتے ہوئے اپنی ضرورت پوری کرنے میں شرعاًحرج نہیں ہے کہ یہ گناہ دوسرے کی طرف سے ہےاورقرآن پاک میں واضح ارشادفرمایا گیاکہ : ﴿ وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی﴾ترجمہ:کوئی جان کسی دوسری جان کابوجھ نہیں اٹھائے گی ۔(سورہ بنی اسرائیل،پارہ15،آیت15)

   اورفی زمانہ جس طرح میوزک اورگانے باجے لگانے، چلانے کامعمول اوررواج ہے،ایسی صورت حال میں ان سے بچ کراپنی بعض ضروریات کوپوراکرناحددرجہ دشوارہوگیاہے،گاڑیوں ،بسوں ، رکشوں وغیرہ میں سفر کامعاملہ ہویادُکان اورشاپنگ مالزوغیرہ سے خریداری کرنی ہو یا وہاں نوکری کرنی ہو،بلکہ گلیوں اورسٹرکوں پرجاناہو،کثیر جگہوں پر میوزک وموسیقی کابلاروک ٹوک اوربے تحاشااستعمال ہوتاہے، یہاں تک کہ اگرمالکان نے میوزک نہ لگایاہو،تووہاں موجودافرادمیں سے کوئی موبائل وغیرہ پرلگائے ہوتاہے،اب اگراس کی وجہ سے گاڑیوں میں سفر،دُکانوں اورشاپنگ مالزوغیرہ سے خریداری اور وہاں نوکری وملازمت اورگلیوں اورسٹرکوں پرنکلنے  سے ممانعت کردی  جائے ،تولوگ گھروں میں محصور ہوجائیں،اشیائے ضروریہ کاحصول اوردوسرے شہروں وغیرہ میں وصول (پہنچنا)ناممکن یاحددرجہ دشوارہوجائے ، جس کی وجہ سے  شدیددشواری اورمشقت میں جاپڑیں اورشریعت مطہرہ کااصول ہے کہ ’’ماضاق الامرالااتسع‘‘(جب بھی کسی معاملے میں دشواری آتی ہے، تووہاں وسعت  آجاتی ہے)۔ (ردالمحتار،ج04، ص556، بیروت)

   لہذااگرکوئی کسی جگہ جائزملازمت کرتاہے اورمالک وغیرہ کی طرف سے وہاں پرمیوزک چلایا جاتا  ہے یاکسی گاڑی وغیرہ میں جائز سفر کرتاہے اورگاڑی والے یاکسی دوسرے کی طرف سے وہاں میوزک  آن  ہے ، یونہی کسی دکان وغیرہ میں خریداری کے لیے جاتاہے اوروہاں مالک دکان یاکسی اورکی طرف سے گانے بجائے جارہے ہیں،تواگروہ اس طرح سمجھاکربندکرواسکتاہے کہ جس سے کسی طرح کےفتنے کا اندیشہ نہ ہو،توسمجھا دےیا بغیرحرج ومشقت کے اس سے بچ سکتاہے، تواپنے آپ کوبچائے ،ورنہ توجہ اپنی ضرورت کی طرف رکھے ، اپنے قصدسے موسیقی نہ  سنے، اس سے لطف اندوز نہ ہو اور میوزک وگانے کودل میں بُراجانے ، ایسی صورت میں اس پرکوئی گناہ نہیں ۔

   نوٹ:یہ یادرہے کہ جہاں نہ دینی ضرورت ہواورنہ دنیاوی ضرورت ہو،تووہاں میوزک وغیرہ ناجائزآوازیں اورباتیں ہوں، تووہاں جانے کی شرعاًاجازت نہیں ہوگی،مثلا:کسی ہوٹل میں  میوزک وغیرہ کاسلسلہ ہے ،اب وہاں صرف انجوائے منٹ کے لیے جائےیاکسی دعوت میں جانے سے پہلے معلوم ہے کہ خاص کھانے کی جگہ میوزک وغیرہ کاسلسلہ ہے اوراس کے منع کرنے یاجانے یانہ جانے سے وہ بندبھی نہیں کریں گے، توایسی دعوت میں جاناکوئی دینی ضرورت نہیں ،بلکہ ناجائز و گناہ ہے۔

   اسی طرح  کسی جگہ میوزک وموسیقی کامعاملہ ہے اوروہاں جاناکسی ضرورت سے توہے،لیکن بغیرحرج ومشقت کے اس کا متبادل موجودہے،جہاں پرمیوزک وغیرہ ناجائزمعاملات نہیں ،تواب اس متبادل کوہی اختیارکرنالازم ہوگاکہ رخصت بوجہ حرج تھی، جب حرج نہیں تورخصت نہیں۔

   بریقہ محمودیہ میں ہے :’’الصنف الثالث في آفات الأذن :استماع كل ما لا يجوز التكلم به بلا ضرورة۔۔۔(فمنها استماع كل ما لا يجوز التكلم به بلا ضرورة)۔۔۔ كالغناء والغيبة (دنيوية)۔۔۔ (كخوف الهلاك) نفسا أو عرضا أوما لا عند عدم الاستماع (وأخذ الحق) بأن لا يصل إليه إلا بذلك (وكسب المعاش) بأن لا يمكن أو يعسر الأخذ أو الكسب بدون الاستماع (أو) بلا ضرورة (دينية كإقامة واجب أو سنة كتشييع جنازة) فإن مقدار من يكفي الدفن من الرجال فرض كفاية وما زاد سنة فلإقامة هذين يجوز استماع النياحة إذا لم يمكن دفعها بطريق آخر كذا في الحاشية۔۔۔۔ وكذا الجمعة والعيدان في زماننا لأنهما غير خاليين عن الغناء واللحن وسائر المنكرات ۔۔۔ (معها نائحة) وهي المرأة التي ترفع صوتها بالبكاء لكن لا يستمع بل يمشي مع الجنازة ولا يضر لك ﴿ وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی (سورۃ الانعام: 164)- فإن قيل الاستماع عند الحضور ضروري فكيف لا يستمع ۔۔۔۔ قلنا يجوز أن المراد بعدم الاستماع والإصغاء عدم الإقبال والتلذذ بل الاشتغال بنحو الذكر والمكالمة مع الإخوان قال يقول عند رؤية المنكر الذي لا يقدر على دفعه هذا منكر وأنا له منكر‘‘ ترجمہ: تیسری قسم کان کی آفات کے بارے میں ہے ،پس اس میں سے ایک ہے  بلاضرورت ہراس بات کوسننا جس کوبولناجائزنہیں جیسے گانا اور غیبت ، ضرورت چاہے دنیاوی ہوجیسے جان یاعزت یامال کی ہلاکت کااندیشہ اگراسے نہ سنا، اورکوئی حق وصول کرناکہ اس کوسنے بغیرحق حاصل نہیں کرسکتااورروزی کمانا،یوں کہ ناجائزبات کوسنے بغیرروزی حاصل کرنایاکمانا،ناممکن یاحددرجہ دشوارہو،یادینی ضرورت ہو،جیسے کسی سنت یاواجب کوادا کرناجیسے جنازے کے ساتھ جاناجبکہ اس کے ساتھ نوحہ کرنے والی ہو،یہ وہ عورت ہے جوبلندآوازکے ساتھ روتی ہے لیکن اس کی طرف سننے کے لیے متوجہ نہ ہوبلکہ جنازے کے ساتھ چلے اوریہ تجھے نقصان نہیں دے گی کہ(قرآن میں فرمایا) کوئی جان کسی دوسری جان کابوجھ نہیں اٹھاتی۔ (جنازے کے ساتھ جانافرض بھی ہے اورسنت بھی )کیونکہ کم سے کم اتنے افرادکہ جودفن کے لیے کافی ہوں ان کاجانافرض کفایہ ہے اوراس سے زائدافرادکاجاناسنت ہے،پس ان دونوں امورکی ادائیگی کے لیےنوحہ سنناجائزہے جبکہ کسی دوسرے طریقے سے اسے روکناممکن نہ ہو۔ اوراسی طرح ہمارے ز مانے میں   جمعہ اورعیدین کامعاملہ ہے کہ  یہ(وہ جگہیں اپنے قرب و جوار میں ) گانے ،لحن اوربقیہ ناجائزامورسے خالی نہیں ہوتے۔

   اگریہ سوال کیاجائے کہ  جب جنازے میں جائے گاتونوحہ توضرورسنے گا(یعنی کانوں میں آواز تو جائے گی)تویہ کیسےکہاجاسکتاہے کہ نہ سنے؟ ہم کہتے ہیں :یہ ہوسکتاہے کہ نہ سننے اورکان نہ لگانے سے یہ مرادہوکہ اس طرف خود متوجہ نہ ہواوراس سے لطف اندوزنہ ہوبلکہ خود کو  ذکرِ الٰہی میں اوراسلامی بھائیوں سے گفتگومیں مصروف رکھے ،فرمایا : جس برائی کوروکنے پرقادرنہ ہواس کودیکھ کریہ کہے:یہ برائی ہے اورمیں اس کاانکارکرتاہوں ۔(بریقہ محمودیہ، الباب الثانی ،الصنف الثالث فی آفات الاذن،ج04،ص51،مطبعۃ الحلبی)

   مزیدبریقہ محمودیہ میں ہے:’’(ومنها) استماع الملاهي آلات اللهو واللعب (بلا اضطرار) (كذلك) المذكور قبله ديني أو دنيوي (كالتجارة) مثال للدنيوي (والغزو والحج) مثالان للدينية لا يخفى أنه مفهوم من الأمثلة كون الضرورة لأداء واجب وقد سمعت قريبا من المصنف أداء سنة أيضا فافهم (إذا لم يمكن) كل واحد منها (إلا مع استماع الملاهي لا يضر) لكن لا يستمعها بل يكرهها ولا يضر سماعها وهذا محمل قوله - صلى اللہ تعالى عليه وسلم - «من حضر معصية فكرهها فكأنما غاب عنها ومن غاب عنها فرضيها فكأنه حضرها» وعن الخانية قوم خرجوا إلى الغزو وفيه قوم من الفسقة وأصحاب الملاهي قالوا إن أمكن للصلحاء أن ينفردوا بالخروج فعلوا ذلك وإلا ففسقهم عليهم ولهؤلاء خالص نياتهم (قال قاضي خان عن النبي صلى اللہ تعالى عليه وسلم «استماع الملاهي معصية» إذا لم يكن بضرورة أو يفرق بين الاستماع والسماع ففي الاستماع الحرمة مطلقا‘‘ ترجمہ:جس طرح غیرشرعی گفتگوکا بغیرکسی دینی یادنیاوی ضرورت کےسنناکان کی آفات میں سے ہے ،جس کاذکر اوپر ہوا،اسی طرح کسی دینی یادنیاوی ضرورت کے بغیرآلات لہوولعب کاسننابھی کان کی آفات میں سے ہے ۔ دنیاوی ضرورت کی مثال جیسے تجارت ہے اوردینی کی مثال جیسے غزوہ اورحج ہے  اوریہ مخفی نہیں کہ ان (تجارت،غزوے اورحج کی)مثالوں سے یہ مفہوم ہورہاہے کہ ضرورت سے مرادواجب کی ادائیگی ہے لیکن آپ تھوڑاپیچھے مصنف سے ہی سن  آئے ہیں کہ سنت کی ادائیگی بھی ضرورت میں شامل ہے ،پس تم سمجھ جاؤ۔جب ان امورمیں سے کوئی امر،آلات لہوولعب کے سنے بغیر ممکن نہ ہوتواس صورت میں ان کاسننانقصان دہ نہیں ہوگا(یعنی گناہ نہیں ہوگا)لیکن قصدااس کو نہ سنے بلکہ اسے ناپسندیدہ جانے اوراب کانوں میں آواز پڑنا شرعا نقصان نہیں دے گااوریہی محمل ہے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کا:"جوکسی گناہ کے پاس موجودہوحالانکہ وہ اسے ناپسندکرتاہوتوو ہ گویاکہ وہاں موجودنہیں ہے اورجووہاں موجودنہ ہولیکن اسے پسندکرتاہوتووہ گویاکہ وہاں موجودہے۔’’ اورخانیہ میں ہے کہ کوئی جماعت غزوہ کے لیے نکلی اوران میں کچھ فساق اورآلات لہوولعب والے ہیں توفقہائے کرام نے فرمایا:اگرنیک افرادکے لیے ممکن ہوکہ وہ ان کے ساتھ نہ جائیں بلکہ تنہاجائیں توایساکرلیں ورنہ ان کے فسق کاوبال ان پرہے اوران کے لیے ان کی خالص نیت ہے ،امام قاضی خان نے فرمایا:نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:"آلات لہوولعب کاسنناگناہ ہے‘‘یعنی جب کہ بلاضرورت ہویاقصداسننے اورخودبخود آواز سنائی دئیے جانے میں فرق کیاجائے گا،قصداًسننامطلقاحرام ہے ۔(بریقہ محمودیہ،الباب الثانی ،الصنف الثالث فی آفات الاذن، ج04،ص51،مطبعۃ الحلبی)

   الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقۃ المحمدیۃمیں ہے:’’(ومنھا)ای من آفات الاذن  ایضا ( استماع الملاھی)۔۔(بلااضطرارلذلک) الاستماع ای ضرورۃ داعیۃ الیہ وعدم امکان الاحترازعنہ (کالتجارۃ )فی سوق اوخان اوسفراوقریۃ وھناک شئی من الملاھی۔۔(و)کذلک (الغزو)۔۔(و) کذلک(الحج)۔۔۔(اذالم یمکن) فعل التجارۃ والغزووالحج (الامع استماع الملاھی)۔۔(لایضر) فی امرالدین اذاکان ممتنعامن ذلک بقلبہ وظاھرہ حسب الامکان‘‘ ترجمہ:اورکان کے مفاسدمیں سے مزامیرکاسننابھی ہے جبکہ بلاضرورت ہو اور بچنا ممکن ہو اور ضرورت کی وجہ سے اور بچنا ممکن نہ ہو تو اجازت ہے۔ ضرورت کی مثال جیسے  کسی بازاریاسرائے یاسفریابستی میں تجارت کامعاملہ ہے اوروہاں  میوزک ہے اوراسی طرح غزوہ اورحج ہے  جب تجارت کرنااورغزوہ میں جانااورحج کرنا،ممکن نہ ہومگر میوزک سننے کے ساتھ ہی تویہ میوزک کاسنائی دیاجانادین کے معاملے میں نقصان دہ نہیں ہوگا،جبکہ اپنے ظاہراورباطن دونوں کے لحاظ سے جہاں تک ممکن ہواس سے بچتاہو۔(الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقۃ المحمدیۃ ،ج04،ص392،دارالکتب العلمیہ،بیروت)

   الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقۃ المحمدیۃ میں ہے:’’(فمنھا )ای من جملۃ تلک الآفات (استماع کل مالایجوزتکلمہ ) ۔ ۔ ۔ ( بلا ضرورۃ ) داعیۃ الی ذالک الاستماع (دنیویۃ)۔۔۔( کخوف الہلاک )علی نفسہ اواولادہ اواھلہ (و)خوف تفویت (کسب المعاش )علیہ فی حرفۃ (او)تجارۃ اوضرورۃ ( دینیۃ)۔۔۔( کاقامۃ واجب )یخاف فوتھا(او)اقامۃ( سنۃ) کذلک  (کتشییع)۔۔۔۔۔ (جنازۃ) ۔۔۔ ( معھا)۔۔۔(نائحۃ)۔۔۔۔قال والدی رحمہ اللہ تعالی فی شرحہ علی شرح الدررمن اواخر الجنائز فان کان مع الجنازۃ نائحۃ اوصایحۃ زجرت فان لم تنزجرفلاباس بالمشی معھاکمافی منیۃ المفتی والخلاصۃ والمجتبی لان اتباع الجنازۃ سنۃ فلاتترک ببدعۃ من غیرہ کذافی الایضاح ویکرہ ذلک بقلبہ کمافی المحیط۔۔۔۔۔(بخلاف اجابۃ دعوۃ ) ۔ ۔۔۔ ( فیھا)۔۔۔(منکر)ای محرم مجمع علیہ ( کالغناء )۔۔۔(فان الداعی لماارتکب المعصیۃ )مماذکر(لم یستحق الاجابۃ ) ۔۔۔(فلم تکن ) تلک الدعوۃ (سنۃ بل) کانت( حراما)لاشتمالھاعلی الحرام‘‘ترجمہ:کان کے مفاسدمیں سے ایک مفسدہ ہے بلاضرورت ہراس چیزکاسنناجس کابولناجائزنہیں ،اب وہ ضرورت خواہ دنیاوی ہو،جیسے:اپنی جان یااپنی اولادیااپنے اہل کے ہلاک ہونے کااندیشہ ہونااورکسی پیشے یاتجارت میں روزی کمانے کاسلسلہ ختم ہوجانے کااندیشہ یادنیاوی ضرورت ہوجیسے کسی  ایسے واجب کوقائم کرناکہ اسے سنے بغیراس کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو یااسی طرح کسی سنت کوقائم کرناہوجیسے جس جنازے کے ساتھ کوئی نوحہ کرنے والی ہواس جنازے کے ساتھ جانا۔میرے والد ماجد علیہ الرحمۃ نے شرح الدررپراپنی لکھی شرح میں کتاب الجنائز کے اواخرمیں فرمایا:پس اگرجنازے کے   ساتھ کوئی نوحہ کرنے یاچلانے والی ہوتواسے ڈانٹاجائے  اوراگروہ باز نہ آئے توجنازے کے ساتھ جانے میں کوئی حرج نہیں ہے، جیساکہ منیۃ المفتی ،اورخلاصہ اور مجتبیٰ میں ہے،کیونکہ جنازے کے ساتھ چلناسنت ہے تودوسرے کی طرف سے پائی جانے والی بدعت کے سبب اسے ترک نہیں کیاجائے گاجیساکہ ایضاح میں ہے اوردل میں اسے براجانے گا،جیساکہ محیط میں ہے ۔برخلاف ایسی دعوت کوقبول کرنے کے کہ جس میں کوئی منکریعنی بالاجماع حرام کام ہو،جیسے گانا کیونکہ دعوت دینے والاجب مذکورہ  معصیت کامرتکب  ہوا،تووہ دعوت کے قبول کرنے کامستحق نہیں ہواپس یہ دعوت سنت نہیں ہوئی، بلکہ حرام ہوئی کہ حرام پرمشتمل ہے ۔(الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقۃ المحمدیۃ، ج04،ص390 ،391، دارالکتب العلمیہ،بیروت)

   فتاوی ہندیہ میں ہے:’’ وإن لم يكن الرجل بحال لو لم يجب لا يمنعهم عن الفسق لا بأس بأن يجيب ويطعم وينكر معصيتهم وفسقهم؛ لأنه إجابة الدعوة وإجابة الدعوة واجبة أو مندوبة فلا يمتنع بمعصية اقترنت بها‘‘ ترجمہ:اوراگرکسی شخص کی ایسی کنڈیشن نہیں کہ اگروہ دعوت قبول نہ کرے، تو اس سے وہ فسق سے بازآجائیں توایسے کے لیے حرج نہیں کہ وہ دعوت قبول کرے اورکھاناکھائے اوران کی معصیت اورفسق کا انکارکرے (دل میں براجانے)کیونکہ یہ دعوت کاقبول کرناہے اوردعوت قبول کرناواجب یامستحب ہے توجو معصیت ساتھ ملی ہوئی ہےاس کی وجہ سے دعوت قبول کرنے سے رکے گانہیں ۔(فتاوی ھندیہ،کتاب الکراھیہ،الباب الثانی عشرفی الھدایات والضیافات،دارالفکر،بیروت)

   اس کے تحت تعلیقات رضویہ میں ہے:’’ إذا لم يكن الفسق على المائدة أما عليها فلا يحضر كما تقدم‘‘ یعنی جبکہ فسق وفجوردسترخوان پرنہ ہو،پس اگردسترخوان پرہو،توپھرنہیں جائے گا،جیساکہ پیچھے گزرا۔(التعلیقات الرضویۃ علی الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراھیۃ ،ص694،مکتبہ اشاعۃ الاسلام،لاھور)

   فتاوی رضویہ میں ہے:’’اوراگریہ دونوں صورتیں نہ ہوں (یعنی نہ توساتھ جانے کی صورت میں منکرات شرعیہ سے بازآئیں گے اورنہ ہی جانے سے انکارکرنے پرمنکرات شرعیہ سے بازآئیں گے ) تواگرجانتاہے کہ جہاں کھانا کھلایا جائے گاوہیں منکرات شرعیہ ہونگے۔۔۔توہرگزنہ جائے۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج21،ص610،رضافاونڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم