Jashn e Azadi Kaise Manaye ?

یومِ آزادی کیسے منائیں ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Pin-4286

تاریخ اجراء: 22 ذو الحجۃ الحرام 1441ھ13 اگست 2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ 14 اگست کو ہمارے ملک میں یومِ آزادی منایا جاتا ہے ۔ اسلامی طور پر یومِ آزادی منانا کیسا ہے ؟ اگر جائز ہے تو اس کا کیا انداز ہونا چاہیے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ملک کا یومِ آزادی منانا ، خوشی منانا ، جائز ہے کہ اللہ عزوجل نے ایک ملک عطا فرمایا ہے ۔ ایک ایسی جگہ عطا فرمائی ہے ، جہاں آزادانہ طور پر اسلامی احکامات پر عمل کیا جاسکتا ہے ۔ یقیناً یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے اور نعمت پر خوشی کا اظہار کرنا بالکل جائز ہے ، بلکہ نعمت کا شکر ادا کرنے کا تو حکمِ خداوندی ہے۔

   لیکن حدودِ شرع کو پامال کرتے ہوئے آزادی کی خوشی منانا جیسا کہ اس موقع پہ معاذ اللہ ! شراب نوشی، ناچ گانے کی محافل کا انعقاد، مردوں عورتوں کا اختلاط، بے پردگی و فحاشی، آتش بازی، ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے۔ موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کے سلنسر نکال کر گلیوں سڑکوں پہ گھومنا اور لوگوں کا سکون برباد کرنا، اس کے علاوہ وَن ویلنگ کا تماشا کرتے ہوئے اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنا، الغرض طرح طرح کے خلاف شرع امور کا ارتکاب کر کے خوشی منائی جاتی ہے ۔ مزید برآں ان میں کئی امور خلاف شرع ہونے کے ساتھ ساتھ قانونی جرم بھی ہوتے ہیں، جو ان کی حرمت میں اضافہ کر دیتے ہیں ۔ اس انداز سے جو بھی خوشی منائی جائے، چاہے وہ آزادی کی ہو، یا کوئی اور، ناجائز و حرام ہے۔ آزادی دینے والے مالک کی نافرمانی کر کے اس کی نعمت کا شکر ادا کرنا کہیں کی بھی عقلمندی نہیں ہے ، یہ نعمت کا شکر نہیں بلکہ ناشکری ہے ۔ جس وطن کو عبادت کے لیے حاصل کیا گیا تھا ، اسی کے رہنے والے اللہ و رسول عزو جل و صلی اللہ علیہ و سلم کے احکامات کی نافرمانی کرتے ذرا نہیں گھبراتے ۔ جن لوگوں نے اس کی خاطر اپنی جان کی قربانیاں دیں ، آج ان لوگوں کی اولاد ہی اس دن اپنے ملک کے قوانین کی خوب دھجیاں اڑاتی ہے ۔

   یومِ آزادی منانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس دن شکرانے کے نوافل ادا کیے جائیں ۔ قرآن خوانی و نعت خوانی کا اہتمام کیا جائے ، ذکر و درود پڑھ کر پاکستان کی خاطر قربانیاں دینے والوں کو ایصالِ ثواب کیا جائے ۔غیر شرعی امور سے پاک محافل کا انعقاد کیا جائے ، جن میں نیکی کی دعوت دی جائے ، برائیوں سے منع کیا جائے ، ملک کے استحکام اور سلامتی کے لیے دعائیں کی جائیں ۔پاکستان کے نظریہ کو متعارف کروایا جائے ۔  وطن سے محبت کرنا سکھایا جائے ، اچھا شہری بننے کی تربیت کی جائے ، اسلام کی دیگر خوبصورت باتیں سکھائی جائیں ۔

   اللہ تعالی شکر ادا کرنے سے متعلق فرماتا ہے : ﴿ لَئِنۡ شَکَرْتُمْ لَاَزِیۡدَنَّکُمْ ترجمۂ کنز الایمان : ’’ اگر احسان مانو گے تو میں تمہیں اور دوں گا ۔‘‘( پارہ 13 ، سورہ ابراہیم ، آیت 7)

   دین اسلام میں شراب نوشی حرام ہے، چاہے خوشی کا موقع ہو یا کوئی اور، اس کے ترک میں ہی انسان کی عافیت اور فلاح و کامیابی کا سامان ہے ۔ چنانچہ شراب کے متعلق قرآن عظیم میں ہے :﴿ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجْتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوۡنَترجمہ کنزالایمان : ” اے ایمان والو ! شراب اور جوا اور بت اور پانسے ناپاک ہی ہیں، شیطانی کام ، تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ ۔ ‘‘( پارہ 7، سورۃ المائدہ، آیت 90)

   یونہی خوشی کے موقع پر باجے کی آواز کو دنیا و آخرت میں ملعون قرار دیا گیا ہے، چنانچہ مسند بزار میں ہے: ’’صوتان ملعونان في الدنيا والآخرة،  مزمار عند نعمة، ورنة عند مصيبة‘‘ ترجمہ : دو آوازیں دنیا و آخرت میں ملعون ہیں : نعمت کے وقت باجے کی آواز اور مصیبت کے وقت رونے کی آواز ۔(مسند بزار، مسند ابی حمزہ انس بن مالک، جلد 14، صفحہ 62، مکتبہ العلوم والحکم، مدینۃ المنورہ)

   اور گانوں کے متعلق سنن ابی داؤد و شعب الایمان میں ہے:’’ الغناء ینبت النفاق فی القلب، کما ینبت الماء الزرع‘‘ ترجمہ : گانا دل میں اس طرح نفاق پیدا کرتا ہے، جیسے پانی کھیتی کو اگاتا ہے ۔( شعب الایمان، فصل و مما ینبغی للمسلم المرء ان یحفظ اللسان عن الشعر  الخ، جلد 7، صفحہ 108، مطبوعہ ریاض )

   بہار شریعت میں ہے : ’’ ناچنا، تالی بجانا، ستار، ایک تارہ، دو تارہ، ہارمونیم، چنگ، طنبورہ بجانا، اسی طرح دوسرے  قسم کے باجے سب ناجائز ہیں ۔ ‘‘( بھار شریعت، حصہ 16، صفحہ 511، مکتبۃ المدینہ، کراچی )

   شریعت نے مرد و عورت دونوں کو پردے کاتاکیدی حکم دیا، اور بے پردگی سے منع فرمایا، چنانچہ قرآن پاک میں ہے : ﴿ قُلۡ لِّلْمُؤْمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَ یَحْفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمْ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ اِنَّ اللہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوۡنَ ، وَ قُلۡ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوۡجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا ترجمہ کنزالایمان: مسلمان مردوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لئے بہت ستھرا ہے بیشک اللہ کو ان کے کاموں کی خبر ہے، اور مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے ‘‘۔( پارہ 18، سورۃ النور، آیت 30 ، 31)

   فتاوی رضویہ میں ہے:’’لڑکیوں کا غیر مردوں کے سامنے خوش الحانی سے نظم پڑھنا حرام ہے اور اجنبی نوجوان لڑکوں کے سامنے بے پردہ رہنا بھی حرام ۔۔۔ اور جو اپنی لڑکیوں کو ایسی جگہ بھیجتے ہیں، بے حیا بے غیرت ہیں، ان پر اطلاقِ دیوث ہو سکتا ہے ۔‘‘( فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 690، رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

   مروجہ آتش بازی جو شادی بیاہ، شب براءت ، نیو ائیر نائٹ اور یومِ آزادی کے موقع پر کی جاتی ہے، حرام ہے، چنانچہ فتاوی رضویہ میں ہے : ’’ آتشبازی جس طرح شادیوں اور شب براءت میں رائج ہے، بیشک حرام اور پورا جرم ہے کہ اس میں تضییع مال ہے، قرآن مجید میں ایسے لوگوں کو شیطان کا بھائی فرمایا، قال اللہ تعالی:﴿ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیۡرًا اِنَّ الْمُبَذِّرِیۡنَ کَانُوۡۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیۡنِ وَکَانَ الشَّیۡطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوۡرًا ترجمہ : اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: کسی طرح بے جا خرچ نہ کرو، کیونکہ بے جا خرچ کرنے والے شیاطین کے بھائی ہوتے ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بہت بڑا نا شکرا ہے ۔‘‘( فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 279، رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

   ایسے مواقع پہ ہلڑ بازی یقیناً مسلمانوں کی ایذا کا باعث بنتی ہے، جبکہ  بلا وجہ شرعی کسی مسلمان کو اذیت دینا بھی حرام ہے، حدیث پاک میں ہے:’’من اٰذی مسلماً، فقد اٰذانی، ومن اٰذانی، فقد اذی اللہ‘‘ ترجمہ : جس نے کسی مسلمان کو ایذا دی، اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی، اس نے اللہ کو ایذا دی ۔( المعجم الاوسط، باب السین، من اسمہ سعید، جلد 4، صفحہ 60، مطبوعہ قاھرہ )

   وَن ویلنگ کرنا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے اور اللہ تعالی نے اپنے آپ کو ہلاکت والے کاموں میں ڈالنے سے منع فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے : ﴿ وَلَا تُلْقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمْ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ ترجمہ : اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو ۔ ‘‘(پارہ 2،سورۃ البقرہ، آیت 195)

   اس آیت کریمہ کے تحت نور العرفان میں ہے : ’’معلوم ہوا کہ ہلاکت کے اسباب سے بھی بچنا فرض ہے، جیسے خود کشی کرنا، بھوک ہڑتال کر کے اپنے آپ کو ہلاک کرنا، زہر کھانا، طاعون کی جگہ جانا وغیرہ ‘‘۔( نور العرفان، صفحہ 37، نعیمی کتب خانہ، گجرات )

   ساتھ ہی ساتھ ون ویلنگ قانوناً بھی جرم ہے، اورقانونی جرم کا ارتکاب شرعاً ناجائز ہے ، فتاوی رضویہ میں ہے:’’ کسی ایسے امر کا ارتکاب جو قانوناً ناجائز ہو اور جرم کی حد تک پہنچے، شرعاً بھی ناجائز ہو گا کہ ایسی بات کے لئے جرم قانونی کا مرتکب ہو کر اپنے آپ کو سزا اور ذلت کے لئے پیش کرنا شرعاً بھی روا نہیں، قال تعالی : ﴿ وَلَا تُلْقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمْ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ ترجمہ : اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو ۔ ‘‘( فتاوی رضویہ، جلد 20، صفحہ 192، رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم