Jannat ul Baqi Mein Dafan Hone Ki Dua Kyun Ki Jati Hai?

جنت البقیع میں دفن ہونے کی دعا کیوں کی جاتی ہے؟

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Gul-2770

تاریخ اجراء:23جمادی الاخری1444ھ/16جنوری2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ جنت البقیع میں دفن ہونے کی دعا کیوں کی جاتی ہے؟شرعی رہنمائی فرما دیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   کتب احادیث میں بقیع ِ پاک کے  بہت فضائل بیان ہوئے ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی مبارک زندگی  میں  جنت البقیع قبرستان تشریف لے جاتے اوربقیع والوں پر سلام اور مغفرت کی دعا فرماتے ۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن  سب سے پہلے اپنی قبر ِ منور سے باہر تشریف لائیں گے،تو آپ کے ساتھ شیخین کریمین یعنی حضرت  ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ  ہوں گے ۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بقیع والوں کے  پاس تشریف لے جائیں گے۔جنت البقیع میں مدفون ہستیوں میں سے 70 ہزار ایسے افراد ہوں گے، جو بغیر حساب کے جنت میں داخل کیے جائیں گے۔حرمین شریفین یعنی مکہ اور مدینہ میں فوت ہونے والوں کو قیامت میں امن والوں میں  اٹھایا جائے گا۔جو مدینہ میں فوت ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس خوش نصیب کی شفاعت فرمائیں گے۔اس کے علاوہ بھی بہت سارے فضائل مدینہ شریف اور بالخصوص جنت البقیع میں دفن ہونے والوں کے متعلق  بیان ہوئے  ہیں، انہی خصوصیات اور فضائل کی وجہ سے عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں موت اور جنت البقیع میں دفن  ہونے کی دعا مانگتے ہیں، لہذا اس دعا کے مانگنے میں کوئی حرج نہیں۔

   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  جنت البقیع تشریف لے جاتےا ور بقیع والوں پر سلام اور مغفرت کی دعا فرماتے، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے:”عن عائشة انها قالت: كان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم  كلما كان ليلتها من رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم يخرج من آخر الليل الى البقيع، فيقول: ’’السلام عليكم دار قوم مؤمنين، واتاكم ما توعدون غدا مؤجلون وانا ان شاء اللہ بكم لاحقون، اللھم اغفر لاهل بقيع الغرقد “ترجمہ:روایت ہے حضرت عائشہ سے فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا کہ جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کے ہاں شب کی باری ہوتی ،تو آپ آخر رات میں بقیع کی طرف نکل جاتے، فرماتے اے مؤمن قوم کے گھر !  تم پر سلام،تم سے جس چیز کا وعدہ تھا وہ (موت )تمہیں مل گئی،  کل(قیامت ) کی مہلت ملی ہوئی ہےاور ان شاءاﷲ ہم بھی تم سے ملنے والے ہیں،خدایا بقیع غرقد والوں کو بخش دے۔(صحیح المسلم،ج2، صفحہ669، حدیث 974، مطبوعہ بیروت)

   مذکورہ  حدیث پاک کی شرح کرتے ہوئے، مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”اس دعا کی وجہ سے بعض مؤمن بقیع میں دفن ہونے کی تمنا کرتے ہیں تاکہ اس خصوصی دعا میں وہ بھی شامل ہوجائیں۔دعا یہ ہے کہ الٰہی  تمام بقیع والے مدفونوں کی مغفرت فرما۔رب تعالیٰ اس پاک سرزمین میں دفن ہونا نصیب کرے۔ (مراۃ المناجیح، ج2، ص537، مطبوعہ نعیمی کتب خانہ،گجرات)

   نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن جب اپنی قبر منور سے نکلیں گے، تو  بقیع والوں کو اپنے ساتھ شامل فرمائیں گے، جیسا کہ ترمذی شریف میں ہے:” قال رسول اللہ  صلى اللہ عليه وسلم: انا اول من تنشق عنه الارض ثم ابو بكر ثم عمر، ثم آتی اهل البقيع فيحشرون معی، ثم انتظر اهل مكة حتى احشر بين الحرمين “ترجمہ: سب سے پہلے میری پھر ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی قبریں  شَق ہوں  گی، پھر میں  جنّت البقیع والوں  کے پاس جاؤں  گا،تو وہ میرے ساتھ اکٹھے ہوں  گے، پھر میں اہل ِمکہ کا انتظار کروں  گا،حتی کہ ہم دونوں حرموں کے درمیان حشر کیے جائیں۔(ترمذی شریف، ج 5، ص 622، حدیث 3692،مطبوعہ مصر )

   ایک موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت ام قیس رضی اللہ عنہا سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا کہ اس مقبرہ میں مدفون  70 ہزار ایسے لوگ ہوں گے، جو بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے، جیسا کہ مجمع الزوائد میں ہے:” يا ام قيس  يبعث من هذه المقبرة سبعون الفا يدخلون الجنة بغير حساب “ترجمہ: اس قبرستان سے سترہزار ایسے لوگ اٹھائے جائیں گےجو بغیر حساب کے داخِلِ جنت ہوں گے۔(مجمع الزوائد، ج04،ص 13، حدیث 5908،  مطبوعہ مکتبۃ القدسی، قاھرہ )

   حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر مقدس میں مرنے کی دعا مانگتے تھے، جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں ہے:”عن عمر رضی اللہ  عنه، قال:اللهم ارزقنی شهادة فی سبيلك، واجعل موتی فی بلد رسولك صلى اللہ عليه وسلم “ترجمہ:حضرت ِ عمر رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ  دعا فرماتے تھے کہ :اے اللہ مجھےاپنی راہ میں شہادت کی موت عطا فرما  اور مجھے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر  میں موت عطا فرما۔       (صحیح البخاری، ج 3، ص23، حدیث 1890، دار طوق النجاۃ)

   حرمین کریمین میں فوت ہونے کی فضیلت کے متعلق شعب الایمان میں ہے:” عن أنس بن مالك، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: ” من مات فی احد الحرمين بعث من الآمنين يوم القيامة“ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو  حرمین( یعنی مکہ اور مدینہ )میں سے کسی ایک جگہ فوت ہوا، تو قیامت کے دن امن والوں میں اٹھایا جائے گا۔(شعب الایمان، ج6،ص50، حدیث 3861، مطبوعہ  ھند)

   مدینہ شریف میں مرنے کی دعا کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” عن ابن عمر، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم:”من استطاع ان يموت بالمدينة فليمت بها، فانی اشفع لمن يموت بها “ترجمہ:حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا  :تم ميں سے جو مدینہ منورہ ميں مرنے کی استطاعت رکھے،وہ مدینہ ہی ميں مرے ،کيونکہ جو مدینہ منورہ ميں مرے گا ميں اس کی شفاعت کروں گا ۔(ترمذی شریف،جلد 5،  صفحہ719، حدیث 3917، مطبوعہ مصر)

   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ انور پر حاضری کے آداب کے متعلق امام اہل سنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”وقت رخصت مواجہہ انور میں حاضر ہواورحضور سے بار بار اس نعمت کی عطا کا سوال کرو، اور تمام آداب کہ کعبہ معظمہ سے رخصت میں گزرے ،ملحوظ رکھو اور سچے دل سے دعاکرو کہ الہٰی! ایمان وسنت پر مدینہ طیبہ میں مرنا اور بقیع پاک میں دفن ہونا نصیب ہو۔(فتاوی رضویہ، ج10، ص769، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم