Ilm e Jafar Kya Hai? Aur Ilm e Jafar Ki Sharai Haisiyat Kya Hai ?

علمِ جفر کیا ہے ؟ نیز علم جفر کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟

مجیب: ابوالفیضان مولانا عرفان احمد عطاری

فتوی نمبر:WAT-2021

تاریخ اجراء: 12ربیع الاول1445 ھ/29ستمبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   علمِ جفر کیا ہے،علم جفر کی شرعی حیثیت کیا ہے،علم جفر کیا سادات کے ساتھ خاص ہے، کیا اس علم سے لوحِ محفوظ کا علم بھی حاصل ہوجاتاہے؟اس علم کے بارے میں علماء اہلسنت کی کوئی کتاب ہو،تو ضرور میری رہنمائی فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   علم جفرکے متعلق اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921 ء)  لکھتے ہیں:جفربیشک نہایت نفیس جائزفن ہے،حضراتِ اہل بیت کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم کاعلم ہے ،امیر المومنین مولیٰ علی کرم اﷲ وجہہ الکریم نے اپنے خواص پر اس کااظہارفرمایا اور سیدنا امام جعفر صادق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اسے معرض کتابت میں لائے۔ کتاب مستطاب جفرجامع تصنیف فرمائی۔ علامہ سیدشریف رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ شرح مواقف میں فرماتے ہیں: امام جعفرصادق نے جامع میں ماکان ومایکون تحریرفرمادیا۔(شرح المواقف     المقصد الثانی      ،جلد6،صفحہ 22، منشورات الشریف الرضی قم ایران)

   سیدنا شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے الدرالمکنون والجوھر المصؤن میں اس علم شریف کا سلسلہ سیدناآدم وسیدنا شیث وغیرہما انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام سے قائم کیا اور اس کے طرق واوضاع اور ان میں بہت غیوب کی خبریں دیں۔(الدرالمکنون والجوھر المصؤن )(فتاویٰ رضویہ، جلد23،صفحہ697،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   ایک اَور مقام پر نقل کرتے ہیں:ابن قتیبہ پھر ابن خلکان پھر امام دمیری پھر علامہ زرقانی شرح مواہب اللدنیہ میں فرماتے ہیں:الجفر جلد کتبہ جعفر الصادق کتب فیہ لاھل البیت کل ما یحتاجون الٰی علمہ و کل مایکون الٰی یوم القیمۃ یعنی جفر ایک جلد ہے کہ امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ نے لکھی اور اس میں اہل بیت کرام کے لیے جس چیز کے علم کی انہیں حاجت پڑے اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے سب تحریر فرمادیا۔(حیوۃ الحیوان الکبرٰی      تحت لفظ الجفرۃ      ،جلد1،صفحہ 279،مطبوعہ: مصطفٰی البابی, مصر        )

   علامہ سید شریف رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ شرح مواقف میں فرماتے ہیں : الجفر والجامعۃ کتابان لعلی رضی اللہ تعالٰی عنہ قد ذکر فیہما علی طریقۃ علم الحرو ف الحوادث التی تحدث الی انقراض العالم وکانت الائمۃ المعروفون من اولادہ یعر فونہما ویحکمون بھما وفی کتاب قبول العھدالذی کتبہ علی بن موسٰی رضی اللہ تعالٰی عنہما الی المامون انک قد عرفت من حقوقنا ما لم یعرفہ اباؤک فقلبت منک عھدک الا ان الجفروالجامعۃ یدلان علی انہ لایتم ولمشائخ المغاربۃ نصیب من علم الحروف ینتسبون فیہ الی اھل البیت ورأ یت انا بالشام نظما اشیرفیہ بالرموز الٰی احوال ملوک مصرو سمعت انہ مستخرج من ذینک الکتابین اھ۔ترجمہ : یعنی جفر و جامعہ امیر المومنین علی کرم اﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم کی دو کتابیں ہیں، بے شک امیر المومنین نے ان دونوں میں علم الحروف کی روش پر ختم دنیا تک جتنے وقائع ہونے والے ہیں سب ذکر فرمادیئے ہیں اور ان کی اولاد امجاد سےائمہ مشہورین رضی اللہ تعالٰی عنہم اُن کتابوں کے رموز پہچانتے اور ان سے احکام لگاتے تھے۔ اور مامون رشید نے جب حضرت امام علی رضا ابن امام موسٰی کاظم رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو اپنے بعد و لی عہد کیا اور خلافت نامہ لکھ دیا امام رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کے قبول میں فرمان بنام مامون رشید تحریر فرمایا اس میں ارشاد فرماتے ہیں کہ تم نے ہمارے حق پہچانے جو تمہارے باپ دادا نے نہ پہچانے اس لیے میں تمہاری ولی عہدی قبول کرتا ہوں۔ مگر جفر وجامعہ بتارہی ہیں کہ یہ کام پورا نہ ہوگا۔( چنانچہ ایسا ہی ہوا اور امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مامون رشید کی زندگی ہی میں شہادت پائی)

   اور مشائخِ مغرب اس علم سے حصہ اور اس میں اہل بیت کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے اپنے انتساب کا سلسلہ رکھتے ہیں ا ور میں نے ملک شام میں ایک نظر دیکھی جس میں شاہانِ مصر کے احوال کی طرف رمزوں میں اشارہ کیا ہے میں نے سنا کہ وہ احکام انہی دونوں کتابوں سے نکالے ہیں۔(شرح  مواقف    النوع الثانی    المقصد الثانی      منشورات شریف الرضی قم ایران       ۶ /۲۲)(فتاویٰ رضویہ، جلد29،صفحہ466،مطبوعہ: رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   اس تفصیل سے واضح ہو گیا کہ یہ حروف کا ایک خاص علم ہے اور یہ علم  دُرست ہے  اور اس سے حاصل ہونے والے علم کے متعلق اقوال مختلف ہیں:بعض میں ماکان و مایکون کے  علم کا بیان کیا گیا ہے اور بعض میں قیامت تک کے علم ہونے کا ذکر ہے اورسابقہ اَدوار کے لحاظ سے اس کا ثبوت بھی ملتا ہے،ابتداءً یہ علم اہلِ بیت کو ہی عطا کیا گیا تھا،مگر اس کی خاص اجازت لے کر کوئی  دوسرا فرد بھی یہ علم حاصل کر سکتا ہے (جس کی تفصیل نیچے جزئیے میں آرہی ہے)، لہٰذا اس کو اہلبیت کے ساتھ ہی خاص نہیں کہا جاسکتا،چنانچہ امام اہلسنت  رحمۃ اللہ علیہ سے اس علم کو سیکھنا  ثابت ہے،مگر آپ علیہ الرحمۃ نے اس کو سیکھنا چھوڑ دیا تھا اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ اس کو سیکھنا بے فائدہ کام ہے  یعنی اس میں کوئی دینی فائدہ نہیں ہے،لہٰذااس کے حصول کی کوشش کے بجائے قرآن و حدیث  اور دین کے مسائل  اور احکام شرعیہ   سیکھنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔

   ملفوظات اعلیٰ حضرت میں ہے:"ایک روز نواب وزیر احمد خاں صاحب ایک کتاب جس میں انہوں نے " تعریفات اشیاء لکھی تھیں ۔ اعلیٰ حضرت مدظلہ کو بغرض اصلاح بعد ظہر سنارہے تھے۔ علم جفر کی تعریف سناتے وقت حضور نے ارشاد فرمایا: آپ نے علم زایرجہ کی تعریف نہ لکھی۔ یہ علم جفر ہی کا ایک شعبہ ہے، اس میں جواب منظوم عربی زبان بحر طویل اور حرف ل کی روی سے آتا ہے اورجب تک جواب پورا نہیں ہوتا مقطع " نہیں آتاجس کوصاحب علم کی اجازت نہیں ہوتی،نہیں آتا،میں نے اجازت حاصل کرنا چاہی۔ اس میں کچھ پڑھا جاتا ہے جس میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم خواب میں تشریف لاتے ہیں ۔ اگر اجازت عطا ہوئی حکم مل گیا، ورنہ نہیں۔ میں نے تین روز پڑھا ، تیسرے روز خواب میں دیکھا کہ ایک وسیع میدان ہے اور اس میں ایک بڑا پختہ کنواں ہے۔حضوراقدس صلی اللہ تعالی علیہ و سلم تشریف فرما ہیں اور چند صحابہ کرام رضی اللہ  عنہم بھی حاضر ہیں جن میں سے میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ  کو پہچانا۔اس کنوئیں میں سے خود حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور صحابہ کرام  علیہم الرضوان ، پانی بھر رہے ہیں۔ اس میں سے ایک بڑا تختہ نکلا کہ عرض ( یعنی چوڑائی ) میں ڈیڑھ گز اور طول ( یعنی لمبائی ) میں دوگز ہوگا اور اس پر سبز کپڑا چڑھا ہوا تھا جس کے وسط میں سفید روشن بہت جلی قلم سے اھ ذ  اسی  شکل میں لکھے ہوئے تھے جس سے میں نے یہ مطلب نکالا کہ اس کا حاصل کرنا" ہذیان "فرمایا جاتا ہے۔ اس سے بقاعدۂ جفر اذن نکل سکتا تھا۔"ہ" کو بطور صدر مؤخر آخر میں رکھا۔ اس کے عدد پانچ ہیں اب وہ اپنی پہلی جگہ سے ترقی کر کے دوسرے مرتبہ میں آگئی اور پانچ کا دوسرا مرتبہ پانچ دہائی ہے یعنی پچاس جس کا حرف نون ہے یوں اذن سمجھاتا،مگرمیں نے اس طرف التفات نہ کیااورلفظ کوظاہرپررکھ کراس فن کوچھوڑدیاکہ اھذ“ کے معنی ہیں”فضول بک۔(ملفوظات اعلیٰ حضرت ، صفحہ 152، 153، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم