Ilania Gunah Karne Wale Ki Tareef Karna Kaisa

 

فاسقِ مُعْلِن (اعلانیہ گناہ کرنے والے) کی  تعریف کرنا کیسا؟

مجیب: مفتی  محمدقاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-9001

تاریخ اجراء: 16 محرم الحرام 1446ھ /23جولائی  2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ کیا فاسقِ مُعلِن شخص کی کسی خوبی کےلحاظ سے تعریف  کی جا سکتی ہے یا اُس کی تعریف کرنا مطلقاً ممنوع ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   فاسقِ معلن شخص کی تعریف کرنے کی دو صورتیں ہیں۔

   (1) اُس کے فسقیہ کام کی تعریف کرنا،مثلاً: کسی فلمی اداکار سےکہنا کہ ”تمہاری فلم بہت شان دار ہے۔“ یہ تعریف وتوصیف شرعاً سخت ناجائز ہے اور یہی وہ  مدح وتعظیم ہے کہ  جس کے بارے میں فرمایا گیا:’’إذا مدح الفاسق غضب الرب تعالى واهتز له العرش‘‘ ترجمہ:جب فاسق کی مدح کی جاتی ہے، تو اللہ تعالیٰ کی ذات  ناراض ہوتی ہے اور اُس کا عرش ہل جاتا ہے۔(مشکوٰۃ المصابیح، جلد 03، صفحہ 1363، مطبوعۃ  المکتب الاسلامی، بیروت)

   (2)فاسق کی اُس خوبی کی تعریف کرنا، جو واقعی شرعاً قابلِ تعریف  عمل یا صفت ہو، مثلاً: ایک فاسق معلن سخی طبیعت ، بہادر، فیَّاض اورغریبوں کی مدد کرنے والا ہے، تو اِن اوصاف کے سبب اُس کی تعریف کرنا شرعاً جائز ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔

   فقہائے کرام نے فاسق کی تعریف کو جن مقامات پر ناجائز قرار دیا ہے، وہاں بطورِ دلیل”مشکوٰۃ المصابیح“ اور ”شعب الایمان“ کی روایت کو نقل فرمایا ہے اور شارِحینِ حدیث نے اِس روایت کی شرح کرتے ہوئے  واضح کیا ہے  کہ اگرچہ اِس روایت کا ظاہر اِسی چیز کا تقاضا کرتا ہے کہ ہر طرح کی تعریف ہی باعثِ غضبِ الہٰی ہو، لیکن یہ مرادِ حدیث نہایت بعید ہے، لہذا اِس روایت کا محمل وہ تعریف ہے کہ جو خاص عمل فسق پر کی جائے کہ عمل فِسق کی تعریف کرنے میں اُس عمل پر رضامندی ہے، جس میں رب کی ناراضی ہے، نیز  یہ تعریف بعض اوقات   کفر کی طرف بھی لے جاتی ہے، کیونکہ اِس تعریف کرنے میں

   بعض مرتبہ اُس عملِ فسق کو حلال سمجھنے کا پہلو بھی موجود ہوتا ہے۔

   ”مدحتِ فاسق سے عرش  ہلنے والی  روایت“ کے تحت علامہ عبدالرؤف مُناوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1031ھ/1621ء) نےلکھا:’’ذلك لأن فيه رضا بما فيه سخط اللہ وغضبه بل يكاد يكون كفرا لأنه ربما يفضي إلى استحلال ما حرم اللہ‘‘ ترجمہ:عرشِ الہی ہلنے کی وعید اِس لیے ہے کہ مدحتِ فاسق میں اُس چیز پر رضا مندی ہے،جس عمل میں خدا کی ناراضی ہے، بلکہ یہ تعریف وتحسین کفر بھی ہو سکتی ہے، کیونکہ ایسی تعریفیں خدا کی حرام کردہ چیزوں کو حلال سمجھنے کی طرف لے جاتی ہیں۔(فیض القدیر، جلد01، صفحہ 441، مطبوعہ دار المعرفہ، بیروت )

   فاسق کے کسی صحیح کام کی تعریف  کرنا، اِس وعید میں داخل نہیں، چنانچہ محقِّق علی الاطلاق  شاہ عبد الحق محدث دہلوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1052ھ/1642ء) نے لکھا:’’لو مدح بوجه خاص فيه كالسخاوة والتواضع فجائز‘‘ ترجمہ:اگر کسی خاص صورت پر فاسق کی تعریف کی جائے تو یہ جائز ہے، مثلاً: اُس کی سخاوت یا عاجزی کی تعریف کرنا۔(لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح، جلد 08، صفحہ 167، مطبوعہ دار النوادر، شام)

   اِسی روایت کے تحت ابو سعید محمد بن مصطفیٰ خادمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1176ھ/1762ء) اپنی کتاب ” اَلْبُریقۃ المحمودیۃ شرح الطریقۃ المحمدیۃ“ میں لکھتے ہیں:’’ظاهر الحديث يشمل ما لو مدحه بما فيه كسخاء وشجاعة ولعله غير مراد‘‘ ترجمہ:حدیثِ مبارک کا ظاہر ہر اُس تعریف کو شامل ہے، جو کسی بھی اعتبار سے ہو، مثلاً :سخاوت یا بہادری کی تعریف کرنا، لیکن حدیث  مبارک کی یہ مراد ہونا بعید ہے۔(اَلْبُریقۃ المحمودیۃ شرح الطریقۃ المحمدیۃ، جلد04، صفحہ 24، مطبعۃ الحلبی)

   اگر ضرورتِ شرعیہ، ظلم سے خلاصی یا اپنا کوئی حق وصول کرنے کے لیے فاسق کے  ناجائز کام پر اُس کی تعریف کرنی پڑے ، تو وہ تعریف شرعاً قابلِ گرفت نہیں، چنانچہ ” اَلْبُریقۃ المحمودیۃ شرح الطریقۃ المحمدیۃ “ میں ہے:’’ أنه إذا مدحه للخلاص عن ظلمه أو لينال حقه من جهته أو من جهة الغير بعانته فلا يضر إذ الضرورة مبيحة للمحظورة‘‘ ترجمہ:جب کسی فاسق کی اُس کے ظلم سے چھٹکارے یا اُس سے اپنا حق حاصل کرنے یا کسی غیر سے اِس فاسق کے ذریعے اپنا حق لینے کے لیے اُس فاسق کی تعریف کرنی پڑے، تو یہ شرعی اعتبار سے باعثِ عذاب نہیں کہ ضرورتِ شرعیہ ممنوع کام کو مباح کر دیتی ہے۔(اَلْبُریقۃ المحمودیۃ شرح الطریقۃ المحمدیۃ، جلد04، صفحہ 23، مطبعۃ الحلبی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم