Ilaj Ke Liye Beer Bahuti Ke Tail Ki Malish Karna Kaisa ?

بطورِ علاج بیر بہوٹی کے تیل کی مالش کرنا کیسا؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12630

تاریخ اجراء: 03جمادی الاخری1444 ھ/27دسمبر2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بیر بہوٹی ایک موسمی کیڑا ہے اس کا تیل بنایا جاتا ہے اور بطورِ علاج اس تیل سے جسم کے مخصوص حصے کی مالش کی جاتی ہے؟ کیا ایسا کرنا درست ہے؟ اس میں کوئی گناہ والی بات تو نہیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بیر بہوٹی کا شمار حشرات الارض میں سے ہوتا ہے اور   فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق جن جانوروں میں بہتا خون نہیں ہوتا، یہ جانور زندہ یا مردہ قلیل پانی میں گر جائیں تو پانی ناپاک نہیں ہوتا کیوں کہ یہ بہتا خون نہیں رکھتے اسی بنا پر ان کے اجزاء پاک ہیں۔ جب یہ پاک ہیں تو انہیں بیرونی استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔

   لہذا  پوچھی گئی صورت میں بغرضِ علاج بیر بہوٹی کے تیل سے جسم کی مالش کرنا اور اس کا بیرونی استعمال کرنا شرعاً جائز ہے۔ البتہ ایسی کسی دوا کو کھانا کسی صورت جائز نہیں ہوگا کیونکہ حشرات الارض اگرچہ پاک ہوتے ہیں لیکن ان کا کھانا ہرگز حلال نہیں۔

   جن جانوروں میں بہتاخون نہیں ہوتا ، ان کے مرنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ چنانچہ بدائع الصنائع، فتاوٰی عالمگیری وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”و النظم للاول“ ثم الحیوان اذا مات فی المائع القلیل فلا یخلو اما ان کان لہ دم سائل او لم یکن ولا یخلو اما ان یکون بریا او مائیا ولا یخلو اما ان مات فی الماء او فی غیر الماء ، ان مات فی الماء او فی غیر الماء فان لم یکن لہ دم سائل کالذباب والزنبور والعقرب والسمک والجراد ونحوھا لا ینجس بالموت ولا ینجس ما یموت فیہ من المائع سواء کان ماء او غیرہ من المائعات کالخل واللبن والعصیر واشباہ ذلک وسواء کان بریا او مائیا کالعقرب المائی ونحوہ وسواء کان السمک طافیا او غیر طاف“یعنی  کوئی حیوان تھوڑے مائع میں مر جائے تو وہ بہتے خون والا جانور ہو گا یا نہیں ، بری ہو گا یا بحری ، پانی میں مرا ہو گا یا پانی کے باہر ، اگر پانی میں یا اس کے باہر ایسا جانور مر جائے جس میں بہتا خون نہیں ہوتا جیسے مکھی ، بھڑ ، بچھو ، مچھلی ، ٹڈی وغیرہ تو یہ جانور موت کی وجہ سے ناپاک نہیں ہوں گے اور جس مائع یا غیر مائع میں مرے ہیں ،جیسے سرکہ ، دودھ ، شیرہ وغیرہ ،  کو بھی ناپاک نہیں کریں گے ، اس میں بری ہوں یا بحری جیسے پانی کا بچھو وغیرہ ، برابر ہیں اور مچھلی خود مری ہو یا خود نہ مری ہو ،وہ بھی برابر ہے ۔ (بدائع الصنائع، کتاب الطھارۃ، فصل فی بیان المقدار الذی الخ، ج01، ص268-270، دار الحدیث قاہرہ)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہواکہ”اگر کُنویں میں سے کوئی جانور مُردہ سڑا ہوا نکل آئے تو اس کنویں کے پانی کا کیا حکم ہے؟“آپ علیہ الرحمہ نے جواب ارشاد فرمایا:” اگر جانور میں دَم سائل نہ تھا جیسے مینڈک، بچھّو، مکّھی، بھڑ وغیرہ تو پاک ہے اور اگر دم سائل تھا تو ناپاک ہے کُل پانی نکالیں۔“(فتاوٰی رضویہ،ج03،ص 288، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   بہارِ شریعت میں ہے:”جن جانوروں میں بہتا ہوا خون نہیں ہوتا جیسے مچھر، مکھی وغیرہ، ان کے مرنے سے پانی نجس نہ ہوگا۔ مکھی سالن وغیرہ میں گر جائے تو اسے غوطہ دے کر پھینک دیں اور سالن کو کا م میں لائیں۔ “(بہار شریعت، ج 01، ص  338، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   حشرات الارض اگر چہ پاک ہیں لیکن ان کا کھانا حرام ہے۔ جیسا کہ الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:”وكل ما ليس له دم سائل حرام إلا الجراد، مثل الذباب والزنابير والعقارب“ترجمہ: ہر وہ جاندار جس میں بہتا خون نہیں ، حرام ہے سوائے ٹڈی کے جیسے مکھی ، بھڑ ، بچھو ۔(الاختیار لتعلیل المختار ،کتاب الذبائح ، فصل ما یحل الخ ،ج02، ص467، پشاور)

   فتاوٰی شامی میں منقول ہے:”في التتارخانية: دود لحم وقع في مرقة لا ينجس ولا تؤكل المرقة إن تفسخ الدود فيها اهـ أي: لأنه ميتة وإن كان طاهرا. قلت: وبه يعلم حكم الدود في الفواكه والثمار ترجمہ: ”تتارخانیہ میں ہے کہ گوشت کا کیڑا اگر شوربے   میں گرجائے تو وہ نجس نہیں ہوگا۔ البتہ اگر وہ کیڑا اس میں پھٹ گیا ہوتو اس شوربے یا سالن کو نہیں کھا سکتے  اس کی وجہ یہ ہے کہ  یہ کیڑا  پاک ہونے کے باوجودمردار ہے (اور مردار کھانا ، جائز نہیں)علامہ شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ اسی سے  خشک اور تر پھلوں میں پائے جانے والے کیڑے کا بھی حکم معلوم ہوگیا ۔  (رد المحتار  مع الدر المختار، کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 620، مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارِ شریعت میں ہے:”حشرات الارض حرام ہیں جیسے چوہا، چھپکلی، گرگٹ، گھونس، سانپ، بچھو، بر، مچھر، پسو، کٹھمل، مکھی، کلی، مینڈک وغیرہا۔“(بہار شریعت، ج 03، ص  324، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   جائز استعمال موجود ہو تو خرید و فروخت کی اجازت ہوتی ہے اور حشرات الارض کے بیرونی استعمال کو فقہاء کرام نے ایک جائز مقام قرار  دیا ہے۔ جیسا کہ مجمع الانہر میں ہے :”وقال بعضهم  إن بيع الحية يجوز إذا انتفع بها للأدويۃ“ یعنی  بعض علما نے فرمایا کہ سانپ کو دوا میں استعمال کرنے کے لیے بیچنا جائز ہے۔(مجمع الانہر ، کتاب البیوع ، مسائل شتی ، ج03، ص151، مطبوعہ کوئٹہ )

   درِ مختار میں ہے:”جوز أبو الليث بيع الحيات إن انتفع بها في الأدوية“یعنی  فقیہ ابو اللیث علیہ الرحمہ نے دواؤں میں استعمال کے لیے سانپ بیچنے کو جائز قرار دیا ہے ۔(الدر المختار مع الرد المحتار، کتاب البیوع ، ج07، ص 507، مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم