فتوی نمبر: FSD-7993
تاریخ اجراء: 27 محرم الحرام1444ھ/26 اگست 2022ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلہ کے بارے میں کہ میری بیٹی 23 سال کی ہے۔ پیدائشی طور پر اُس کے بائیں ہاتھ کی چھ انگلیاں ہیں۔ چھٹی انگلی، چھنگلیا کے ساتھ اور دیگر انگلیوں کے سائز کے برابر ہی ہے۔ یہ انگلی حرکت نہیں کرتی، بلکہ ہڈی کی طرح بس اَکڑی ہی رہتی ہے۔اِس انگلی کے ہونے کی وجہ سے میری بیٹی آٹا وغیرہ نہیں گوندھ سکتی، نیز اِس کے علاوہ ہاتھ سے ہونے والے دیگر کام بھی درست انداز میں نہیں کر پاتی، کیونکہ اِس انگلی کی وجہ سے اُس کے ہاتھ کی ”گرفت“ٹھیک نہیں ہے۔ اب عنقریب اُس کی شادی ہے، جس کی وجہ سے ہم پریشان ہیں۔ ڈاکٹرز اِس کا علاج صرف سرجری ہی بتاتے ہیں کہ اگر آپریشن کے ذریعے اِسے ختم کر دیا جائے ،تو ہاتھ کی گرفت ٹھیک ہو جائے گی۔ ہمیں شرعی رہنمائی عطا فرمائیں کہ کیا ہم اضافی انگلی کٹوا سکتےہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اسلامی نقطہ نظر سے کسی بھی شرعی اور فطری ضرورت کے بغیر خود ساختہ جسمانی تبدیلی ممنوع ہے، لیکن مخصوص شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے بعض صورتوں میں ہمارا دین ِ رحمت ہمیں جسمانی تبدیلی کی رخصت اور اجازت مہیا کرتا ہے، چنانچہ فقہائے کرام نے ہاتھ یا پاؤں میں موجود زائد انگلی کٹوانے کی اجازت دی ہے، مگر یہ شرط رکھی ہے کہ اِس عملِ جراحت (surgery)میں مریض یا مریضہ کی ہلاکت کا قوی اندیشہ نہ ہو، لہٰذا اگر اندیشہ نہیں، تو اِسے کٹوانا بالکل جائز ہے، کیونکہ فقہی تصریحات کے مطابق زائد انگلی ایک عیب اور نقص ہے اور بدنی نقص کو زائل کرنا یا کروانا، شریعت میں جائز ہے۔ مختلف بیماریوں کا علاج اِس کی واضح مثال ہے۔ چنانچہ فی زمانہ سائنسی اور میڈیکل شعبے کی ترقی کسی پر مخفی نہیں، پیچیدہ سے پیچدہ مسائل اور امراض کا حل بھی ممکن ہو چکا ہے، لہذا مذکورہ مسئلہ کا علاج بالکل ممکن اور ہلاکت وضررِ شدید کے اندیشے سے مکمل طور پر خالی ہے، لہٰذا آپ کو شرعی طور پر اجازت ہے کہ کسی ماہر طبیب سے اِس کی سرجری کروا لیں۔
دین میں تنگی اور سختی نہیں ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا﴿وَ مَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ﴾ترجمہ کنزالعرفان:’’اور تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی۔‘‘(سورۃ الحج،پارہ17، آیت78)
زائد انگلی نقص اور عیب ہے، چنانچہ ملک العلماءعلامہ کاسانی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات :587ھ /1191ء) لکھتے ہیں:’’الأصبع الزائدة في الكف نقص فيها وعيب‘‘ترجمہ:ہاتھ میں زائد انگلی کا ہونا، نقص اور عیب ہے۔(بدا ئع الصنائع، جلد10،کتاب الجنایات، صفحہ411،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
زائد انگلی کی صورت میں ہاتھ کی پکڑ اور گرفت کمزور ہو جاتی ہے، چنانچہ شمس الائمہ، امام سَرَخْسِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:483ھ/1090ء) لکھتے ہیں:’’هذا نوع شلل من حيث إنه يمكن نقصانا في منفعة البطش‘‘ ترجمہ: زائد انگلی کا ہونا، فالج کی ہی ایک صورت ہے، کہ یہ کسی چیز کو پکڑنے اور گرفت رکھنے میں نقص پیدا کر دیتی ہے۔(المبسوط للسرخسی، جلد26، صفحہ167، مطبوعہ دارالمعرفہ، بیروت)
زائد انگلی کٹوانے کے متعلق بالصراحت مجتہد فی المسائل امام قاضی خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے لکھا:’’إذا أراد أن يقطع إصبعا زائدة أو شيئا آخر قال أبو نصر رحمه اللہ تعالى إن كان الغالب على من قطع مثل ذلك الهلاك فإنه لا يفعل لأنه تعريض النفس للهلاك و إن كان الغالب هو النجاة فهو في سعة من ذلك‘‘ ترجمہ:جب کوئی شخص اپنی زائد انگلی یا کسی دوسرے زائد عضو کو کٹوانے کا ارادہ رکھے، تو ایسے فرد کے متعلق امام ابو نصر رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا:اگر انگلی وغیرہ کٹنے سے ہلاکت غالب ہو، تو وہ شخص اپنی زائد انگلی نہیں کٹوا سکتا، کیونکہ اِس صورت میں اپنی جان کو ہلاکت پر پیش کرنا ہے اور اگر سرجری کا کامیاب ہونا اور صحت مل جانا غالب ہو تو انگلی یا کسی بھی زائد عضو کے کٹوانے کی گنجائش موجود ہے۔(فتاویٰ قاضی خان، جلد3، کتاب الحظر والاباحہ، صفحہ 313، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
اِسی جزئیہ کو بعینہٖ فتاویٰ عالمگیری میں درج ذیل مقام پرنقل کیا گیا۔(الفتاوى الھندیہ، جلد5، صفحہ360،مطبوعہ کوئٹہ)
مذکورہ بالا جزئیہ کسی فرد کا ڈاکٹر کے پاس جا کر خود اپنی زائد انگلی کٹوانے کے متعلق ہے۔ فقہائے کرام نے یہی اختیار والدین کو بھی دیا ہے کہ وہ اپنے بچے یا بچی کی زائد انگلی کٹوا سکتےہیں، چنانچہ ”فتاویٰ قاضی خان“ میں ہے:’’رجل او امراۃ قطع الاصبع الزائدۃ من ولدہ، قال بعضھم لا یضمن لانہ معالجۃ ولھما ولایۃ المعالجۃ‘‘ ترجمہ:باپ یا ماں نے اپنے بچے کی زائد انگلی کٹوا دی ، تو بعض فقہاء نے فرمایا کہ اُن پر کوئی ضمان نہیں ، کیونکہ یہ ایک علاج ہے اور انہیں اپنی اولاد کا علاج کروانے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔(فتاویٰ قاضی خان، جلد3، کتاب الحظر والاباحہ، صفحہ 313، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
مذکورہ جزئیہ میں اگرچہ ”بعضھم“اِس قول کے ضعیف ہونے کی طرف مشیر ہے،مگر درحقیقت یہی مختار ہے، جیسا کہ خود امام قاضی خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اِس مسئلہ میں دیگر آراء نقل کرنے کے بعد ”المختار ھو الاول“ کہا، نیز فتاویٰ عالمگیری میں بھی اِسی قول کو مختار قرار دیا گیا، چنانچہ”فتاویٰ عالمگیری“ میں ہے:’’رجل أو امرأة قطع الإصبع الزائدة من ولده قال بعضهم لا يضمن ولهما ولاية المعالجة وهو المختار‘‘ ترجمہ: باپ یا ماں نے اپنے بچے کی زائد انگلی کٹوا دی ، تو بعض فقہاء نے فرمایا کہ اُن پر کوئی ضمان نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک علاج ہے اور انہیں اپنی اولاد کا علاج کروانے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔یہی قول مختار ہے۔(الفتاوى الھندیۃ، جلد5، الباب الحادی والعشرون ، صفحہ360،مطبوعہ کوئٹہ)
جامعہ کویت (Kuwait University)میں ”کلیۃ الشریعۃ والدراسات الاسلامیۃ“ کے پروفیسر ڈاکٹر محمد عثمان شبیر نے زیب وزینت کے لیے مختلف آپریشنز کروانے کا فقہ اسلامی کی رُو سے جائزہ لیا ہے۔ اُن کی کتاب کا نام ”احکام جراحۃ التجمیل فی الفقہ الاسلامی“ہے۔اِس کتاب میں زائد انگلی کی سرجری کے متعلق مختلف فقہاء کی آراء نقل کی گئیں، اُن کے دلائل بیان کیے گئے اور آخر پر بطورِ خلاصہ یہ کلام کیا:’’خلاصۃ القول فی ذلک ان الزوائد التی یولد بھا الانسان عیب ونقص فی الخلقۃ المعھودۃ ویجوز قطعھا بشروط وھی (ا) ان تکون زائدۃ علی الخلقۃ المعھودۃ کوجود اصبع سادس فی الید او الرجل۔(ب) ان تؤدی الی ضرر مادی او نفسی لصاحبھا۔(ج) ان یاذن صاحبھا او ولیہ فی القطع۔(د) ان لا یترتب علی قطعھا ضرر اکبر کتلف عضو او ضعفہ‘‘ ترجمہ:اِس مسئلہ میں تمام بحث کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ انسان میں پیدائشی طور پر زائد اعضاء کا ہونا، عیب اور نقص ہے اور چند شرائط کے ساتھ اِنہیں کٹوانا، جائز ہے۔(1)زائد عضو طبعی اور عادِی طرزِ تخلیق سے زائد اور اضافی ہو۔ جیسا کہ ہاتھ یا پیر میں چھَٹی اُنگلی کا ہونا۔(2) زائد عضو کا ہونا ، اُس فرد کےلیے نفسانی یا مادی ضرر کا باعث ہو۔(3)وہ فرد خود یا اُس کا ولی، اُس عضو کو کاٹنے کی اجازت دے۔(4)زائد عضو کٹوانے کی صورت میں کسی بڑے ضرر، مثلاً: عضو کے ضائع ہونے یا کمزور پڑنے کا اندیشہ نہ ہو۔(احکام جراحۃ التجمیل فی الفقہ الاسلامی، صفحہ 44، مطبوعہ المحقق)
طبی معلومات:
مختلف تحقیقاتی طبی اداروں کے ریسرچ آرٹیکلز (Research Articles)پڑھنے سے یہ معلومات حاصل ہوئی کہ اِس مسئلہ کو جدید میڈیکل کی زبان میں”Polydactyly“ کہا جاتا ہے۔ اگر چھوٹی عمر (Infant Stages)میں ہی اِس کا علاج کروا لیا جائے، تو بہتر ہے کہ اُس وقت اُس انگلی میں کوئی رَگ یا ہڈی نہیں ہوتی اور بڑی آسانی سے اِس کا علاج ممکن ہوتا ہے۔ اِس صورتِ حال میں کی جانے والی سرجری کو میڈیکلی”Simple Surgical Method“ کہا جاتا ہے۔سرجری کی اِس قِسم میں ڈاکٹر اضافی انگلی کی ہاتھ سے جڑی ہوئی سائیڈ پر ایک مخصوص کلپ باندھ دیتا ہے، جسے ”Vascular Clip“ کہا جاتا ہے، یہ کلپ اِس انداز میں لگایا جاتا ہے کہ زائد انگلی میں خون کی رَوانی مکمل طور پر رُک جاتی ہے اور تقریباً ڈیڑھ سے دو ہفتوں میں وہ انگلی خود بخود جھڑ جاتی ہے، چنانچہ جھڑنے کے بعد معمولی سی ٹریٹمنٹ سے انگلی کا نشان بھی زائل ہو جاتا اور ہاتھ بالکل نارمل ہو جاتا ہے۔
لیکن اگر بچپن میں یہ سرجری نہ ہو، تو بعد میں اِس میں کافی پیچیدگیاں(complexities) پیدا ہو جاتی ہیں اور پھر اِس سرجری کے لیے آدھے گھنٹے سے دو گھنٹے درکار ہوتے ہیں، لیکن یہ بھی انتہائی محفوظ سرجری ہےاور اِس صورتِ حال میں بھی شدید ضرر یا ہلاکت کا تناسب بالکل بھی نہیں ہے۔
انگلینڈ کے مستند ادارے”News Medical Life Sciences“ کی تفصیلی ریسرچ کے چند اقتباسات ملاحظہ کیجیے!
The condition in which people possess an extra finger or toe, i.e., a supernumerary digit, is called ‘Polydactyly’.
This condition happens in 1 out of 1,000 children. Usually, surgery may be a choice of the individual or of parents (for minors), unless it causes certain complications that lead to:
pain
difficulty in fitting into shoes
unsightly appearance of toes or fingers
obstruction with walking/other activities
psychologically embarrassing.
The surgical methods of removing extra digits are classified into two, based on the complexity of the connection of the digit (slightly connected or deeply connected with nerves or bones) to the hands and feet.
Complex surgical method
Simple surgical method
(1) Complex surgical method surgery takes from a few minutes to a couple of hours to complete. In some cases, more than one procedure is carried out to make the hand look normal and function well.
(2) In Simple surgical method, when once it is confirmed that there is no bone or nerve in the extra digit, a clip is attached to the joined end, and a bandage is wound around it. This is a simple process. After fixing of the clip, the blood flow in the region of the digit is severed. When the blood flow stops completely, the digit will automatically fall off (in a couple of weeks). The bandages are removed after that.
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کنڈا لگا کر بجلی استعمال کرنے کاحکم
غیر محرم لے پالک سے پردے کا حکم
جوان استاد کا بالغات کو پڑھانےکا حکم؟
شوہر کے انتقال کے بعد سسر سے پردہ لازم ہے یانہیں؟
کیا دلہن کو پاؤں میں انگوٹھی پہنانا جائز ہے؟
مرد کا جوٹھا پانی پینے کا حکم
محرم کے مہینے میں شادی کرنا کیسا؟
موبائل ریپئرنگ کے کام کی وجہ سے ناخن بڑھانا کیسا؟