Hafte Ke Din Machli Khana Aur Shikar Karna Kaisa ?

ہفتے کے دن مچھلی کھانا اور شکار کرنا کیسا؟

مجیب: ابو احمد محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-1284

تاریخ اجراء:       03جمادی الاولیٰ 1444 ھ/28نومبر2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا ہفتے کے دن مچھلی نہیں کھاسکتے؟ اور کیا حضرت سیدنا موسی علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کی امت کو ہفتے کے دن مچھلی کھانے پر بندر بنادیا تھا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

      ہفتے کے دن مچھلی کا شکار کرنا اور کھانا  بلاشک وشبہ جائز ہے ۔ ہفتے کے دن مچھلی کے شکار کی ممانعت کا حکم د ین موسوی میں تھا  ہمارے دین میں یہ حکم منسوخ ہوچکا اب ا س پر عمل جائز نہیں اور دین موسوی میں چونکہ ہفتے کے دن شکار کرنا جائز نہ تھا ا س لئے جنہوں نے ا س حکم پر عمل نہ کیا  انہیں بندروخنزیر بنادیا گیا تھا ۔اورحضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہماسے مروی ہے کہ نوجوان بندروں کی شکل میں اور بوڑھے خنزیروں کی شکل میں مسخ ہوگئے۔

      اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:( وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ)ترجمہ کنز الایمان: اور یقیناً تمہیں معلوم ہیں وہ لوگ جنہوں نے تم میں سے ہفتہ کے دن میں سرکشی کی۔ تو ہم نے ان سے کہا کہ دھتکارے ہوئے بندر بن جاؤ۔(پارہ 1،سورہ بقرہ،آیت 65)

         قرآن مجید میں ہے(قُلْ هَلْ اُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِكَ مَثُوْبَةً عِنْدَ اللّٰهِؕ-مَنْ لَّعَنَهُ اللّٰهُ وَ غَضِبَ عَلَیْهِ وَ جَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَ الْخَنَازِیْرَ وَ عَبَدَ الطَّاغُوْتَؕ-اُولٰٓىٕكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّ اَضَلُّ عَنْ سَوَآءِ السَّبِیْلِ) (۶۰)ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ کیا میں بتادوں جو اللہ کے یہاں اس سے بدتر درجہ میں ہیں وہ جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان پر غضب فرمایا اور ان میں سے کردئیے بندر اور سؤر اور شیطان کے پوجاری ان کا ٹھکانا زیادہ بُرا ہے اور یہ سیدھی راہ سے زیادہ بہکے۔(پارہ 6،سورہ مائدہ،آیت 60)

   تفسیر طبری میں ہے” عن مجاهد في قوله:"(وجعل منهم القردة والخنازير) ، قال: مسخت من يهود ترجمہ :اللہ عزوجل کے فرمان"اور ان میں سے کر دیئے بندر اور سؤر"کے متعلق امام مجاہد رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ یہود مسخ کئے گئے۔(تفسیر طبری،ج 10،ص 439، مؤسسة الرسالة)

      عمدۃ القاری میں ہے "وروى ابن جرير من طريق العوفي عن ابن عباس: صار شبانهم قردة وشيوخهم خنازير. " ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہماسے مروی ہے کہ ان کے نوجوان بندربن گئے اوران کے بوڑھے خنزیربن گئے ۔(عمدۃ القاری،ج16،ص05،داراحیاء التراث العربی،بیروت)

      مذکورہ آیت کریمہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے” شہر اَیْلہ میں بنی اسرائیل آباد تھے انہیں حکم تھا کہ ہفتے کا دن عبادت کے لیے خاص کردیں اوراس روز شکار نہ کریں اور دنیاوی مشاغل ترک کردیں۔ ان کے ایک گروہ نے یہ چال چلی کہ وہ جمعہ کے دن شام کے وقت دریا کے کنارے کنارے بہت سے گڑھے کھودتے اور ہفتہ کے دن ان گڑھوں تک نالیاں بناتے جن کے ذریعہ پانی کے ساتھ آکر مچھلیاں گڑھوں میں قید ہوجاتیں اور اتوار کے دن انہیں نکالتے اور کہتے کہ ہم مچھلی کو پانی سے ہفتے کے دن تو نہیں نکالتے، یہ کہہ کر وہ اپنے دل کو تسلی دے لیتے۔ چالیس یا ستر سال تک ان کا یہی عمل رہا اور جب حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت کازمانہ آیا توآپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں اس سے منع کیااور فرمایا کہ قید کرنا ہی شکار ہے جو تم ہفتے ہی کو کر رہے ہو۔ جب وہ باز نہ آئے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان پر لعنت فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں بندروں کی شکل میں مسخ کردیا۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ نوجوان بندروں کی شکل میں اور بوڑھے خنزیروں کی شکل میں مسخ ہوگئے، ان کی عقل اور حواس تو باقی رہے مگر قوت گویائی زائل ہوگئی اور بدنوں سے بدبو نکلنے لگی، وہ اپنے اس حال پر روتے رہے یہاں تک کہ تین دن میں سب ہلاک ہوگئے، ان کی نسل باقی نہ رہی اور یہ لوگ ستر ہزار کے قریب تھے۔(تفسیر صراط الجنان،ج 1،ص 155،مکتبۃ المدینۃ، کراچی)

      مرآۃ المناجیح میں حدیث پاک کے اس حصے: (اور اے یہودیو تم پر خصوصًا یہ بھی لازم ہے کہ ہفتہ  کے بارے میں حد سے نہ بڑھو)کے تحت ہے”اس دن شکار نہ کرو یعنی ہفتہ کو شکار نہ کرنا تمہاری توریت کا حکم ہے یہ تمہارے لئے آیت بیّنہ تھی اَب توریت منسوخ ہوچکی یہ حکم بھی منسوخ ہوگیا۔"(مرآۃ المناجیح،ج 1،ص 83،قادری پبلشرز،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم