Gunahgar Shakhs Par Aane Wali Bimari Aur Pareshani Se Gunah Maaf Hona

بے نمازی اور گنہگار شخص پر آنے والی بیماری یا پریشانی سے اس کے گناہ معاف ہوں گے یا نہیں ؟

مجیب: مولانا محمد کفیل رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-955

تاریخ اجراء:13ذیقعدۃالحرام1444 ھ/03جون2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر کوئی نمازیں نہ پڑھتا ہو، قران بھی مکمل نہ پڑھا ہو، سارا دن کچھ کبیرہ گناہ بھی کرتا ہو اور نیک نمازی بننے کو اس کا دل بھی کرتا ہو،لیکن نفس و شیطان، لمبی امیدوں اورسستی کی وجہ سے نیک نہ بن پاتا ہو، اس پر جو بیماری ،بخار ،سردرد، پریشانیاں آئیں ،تو کیا وہ گناہوں سے پاک صاف ہو جائے گا جیسے ابھی ماں کے پیٹ سے نکلا ہو جیسا کہ حدیث میں  بخار اور سر دردسے متعلق فضیلت بیان ہوئی۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بیماری یا کوئی مصیبت و تکلیف پہنچنے پر جو فضائل اور ثواب ہے وہ اس امتحان میں صبر کرنے والوں کے لیے ہیں دوسروں کے سامنے بلاوجہ رونا پیٹنا کر کے بے صبری کرنے سے ایسا شخص احادیث میں بیان کردہ ثواب کا حقدار نہیں ہوگا۔

   چنانچہ قرآن کریم میں ہے:’’وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ ‘‘ترجمہ کنز العرفان: اور ہم ضرورتمہیں کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کوخوشخبری سنا دو۔(سورۂ بقرہ، آیت 155)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”بہت موٹی سی بات ہے جو ہر شخص جانتا ہے کہ کوئی کتنا ہی غافل ہو مگر جب (اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا وہ کسی مصیبت اور) مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو کس قدر خداکو یاد کرتا اور توبہ و استغفار کرتا ہے اور یہ تو بڑے رتبہ والوں کی شان ہے کہ( وہ) تکلیف کا بھی اسی طرح استقبال کرتے ہیں جیسے راحت کا( استقبال کرتے ہیں ) مگر ہم جیسے کم سے کم اتنا تو کریں کہ (جب کوئی مصیبت یا تکلیف آئے تو)صبر و استقلال سے کام لیں اور جَزع و فَزع (یعنی رونا پیٹنا)کرکے آتے ہوئے ثواب کو ہاتھ سے نہ (جانے) دیں اور اتنا تو ہر شخص جانتا ہے کہ بے صبری سے آئی ہو ئی مصیبت جاتی نہ رہے گی پھر اس بڑے ثواب(جو احادیث میں بیان کیاگیا ہے) سے محرومی دوہری مصیبت ہے۔(بہارِ شریعت، جلد 1،صفحہ 799، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   البتہ گناہوں کی حقیقی معافی کا علم اللہ عزوجل کو ہے  احادیث میں جو فضائل آئے ہیں وہ نیک لوگوں کے ساتھ خاص نہیں ہیں، اللہ عزوجل کی رحمت سے امید ہے کہ وہ سب کو ملیں گے۔

   احادیث میں  بیماری یا سر درد وتکالیف وغیرہ سے گناہوں کی معافی کا ذکر تو ہے،لیکن عمومی فضائل کو علماء گناہ صغیرہ معاف ہونے کے ساتھ ہی خاص  فرماتے ہیں،بلکہ جن چیزوں کے فضائل میں  کبیرہ گناہوں کی معافی کا تذکرہ ہے ان کی وجہ سے بھی یہ سوچ کر گناہوں میں مبتلا ہونا کہ فلاں کام کرنے سے کبیرہ گناہ معاف ہو جائیں گے یہ کسی طرح بھی شریعت اور عقل کے مطابق نہیں ہے ۔یاد رہے! گناہوں سے نجات کا ذریعہ گزشتہ گناہوں پر سچی  ندامت، اللہ عزوجل کی پاک بارگاہ میں سچے دل سے توبہ و استغفار کرنا اور ساتھ ساتھ آئندہ گناہوں میں مبتلا نہ ہونے کا پختہ ارادہ کرنا ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم