Ghar Mein Kabootar Palna Kaisa ?

گھر میں کبوتر پالنا کیسا ؟

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2164

تاریخ اجراء: 23ربیع الثانی1445 ھ/08نومبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا گھر میں کبوتر پالنا منع ہے؟اور کیا گھر میں کبوتر پالنے سے تنگدستی آتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

      چند شرائط کے ساتھ گھر میں کبوتر پال سکتے ہیں،شرعاً اس  میں کوئی ممانعت نہیں۔اور اس کو پالنے سے گھر میں تنگدستی آتی ہو،ایسا بھی ہرگز نہیں،یہ محض عوامی خیال ہوسکتا ہے،جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔جن شرائط کے ساتھ کبوتر پالنا جائز ہے، وہ شرائط یہ   ہیں:

   (1)کبوتر  یا کسی بھی پرندےکو  پالنے کی صورت میں اُسے ایذا سے بچائے اور اس کے دانہ پانی کا پورا خیال رکھے  ورنہ  اُسے پالنا اور بھوکا پیاسا رکھنا سخت گناہ ہے۔

   (2) اُڑانے کیلئے نہ پالے ، کیونکہ پرندوں کو اُڑانا ایک  قسم کا لہو (کھیل)ہے۔جو کئی ناجائز  چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے  جیسے چھتوں پر چڑھ کر اُڑانے کی صورت میں اجنبی عورتوں کی طرف نظر پڑتی ہے ،اسی طرح پرندوں کو اُڑانے میں کنکریاں پھینکی  جاتی ہیں جس کی وجہ سے کسی کا جانی یا مالی نقصان ہونے کا کافی اندیشہ ہوتا ہے ،نیز دن بھر  پرندوں کو بھوکا پیاسا اُڑایا جاتا ہے   جب وہ اترنا چاہیں اُنہیں اترنے نہیں دیا جاتا وغیرہ ۔

   (3)کبوتروں  کو آپس میں لڑوایا نہ جائے کہ بلا وجہ بے زبان جانوروں کو ایذا دینا ہے۔ 

   صحیح بخاری شریف کی حدیثِ مبارکہ ہے:’’حدثنا ابو التیاخ قال سمعت انس بن مالک رضی اللہ  عنہ یقول: ان کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یخالطنا ،حتی یقول  لاخ لی صغیر :یا ابا عمیر ما فعل النغیر‘‘ ترجمہ:ہمیں ابو التیاخ  نے حدیث بیان کی فرمایا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا  کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں گُھلے مِلےرہتے تھے   یہاں تک کہ میرے چھوٹے بھائی سے فرماتے ،اے ابو عمیر! نغیر(پرندے)کا کیا ہوا۔(صحیح بخاری،کتاب الادب،صفحہ1100،رقم الحدیث:6129،مکتبہ عصریہ بیروت)

   شارحِ بخاری، علامہ احمد بن علی بن حجر  رحمۃ اللہ علیہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں ارشاد فرماتے ہیں:’’فیہ جواز  امساک الطیر  فی القفص و نحوہ‘‘ترجمہ: اس حدیث میں پرندے کو  پنجرے یا اس کے علاوہ کسی چیز میں    رکھنے کا جواز موجود ہے۔(فتح الباری شرح صحیح البخاری،جلد10،صفحہ601،مطبوعہ  عرب شریف)

   رد المحتار علی الدرالمختار میں ہے:’’ لا بأس بحبس الطیور والدجاج  فی بیتہ ولکن یعلفھا‘‘ترجمہ: پرندوں ، مرغیوں کو گھر میں رکھنے میں کوئی حرج نہیں لیکن ان کےدانہ پانی کا خیال رکھے۔(رد المحتار علی الدرالمختار ،جلد 9،کتاب الحظر والاباحۃ،صفحہ 662، مطبوعہ کوئٹہ)

   کبوتروں کو اُڑانے کیلئے پالنے سے متعلق ،فتاوی رضویہ  میں ہے:’’کبوتر پالنا جبکہ خالی دل بہلانے کیلئے ہو اور کسی امر ناجائز کی طرف مودی(یعنی لے جانے والا) نہ ہو  جائز ہے اور اگر چھتوں پر چڑھ کر اڑائے کہ مسلمانوں کی عورات پر نگاہ پڑے یا ان کے اڑانے کو کنکریاں پھینکے جو کسی کا شیشہ توڑیں یا کسی کی آنکھ پھوڑیں یا کسی کا دَم بڑھائے اور تماشا ہونے کیلئے دن بھر انہیں بھوکا اڑائے جب اترنا چاہیں نہ اترنے دے تو ایسا پالنا حرام ہے‘‘۔(فتاوی رضویہ،جلد 24،صفحہ655، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم