Ghair Muslim Naukar Se Gosht Mangwana

غیر مسلم نوکر سے گوشت منگوانا

مجیب:ابو حفص مولانا محمد عرفان  عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-1964

تاریخ اجراء:20صفرالمظفر1445ھ/07ستمبر2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر کوئی مسلمان اپنے غیر مسلم نوکر کو مسلم کی دکان سے گوشت لینے کے لیے بھیجےاور وہ غیر مسلم نوکر مسلم ہی کی دکان سے خرید کر مسلمان مالک کو گوشت لا کر کے دے، تو کیا اس گوشت کا مسلمانوں کو کھانا جائز ہے؟  کیونکہ ہمارے یہاں عوام میں یہ مسئلہ مشہور ہے کہ مسلمان کا ذبح شدہ گوشت پکنے تک بلکہ پلیٹ میں آنے تک اگر ایک لمحے کے لیے بھی مسلم کی آنکھوں سے اوجھل ہوا، تو وہ مسلمانوں کے لیے کھانا جائز نہیں ۔ تو کیا یہ درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اس حوالہ سے یہ اصول ذہن نشین فرما لیجئے کہ گوشت کی حلت کے لئے ضروری ہے کہ حلال جانورکو مسلمان یا کتابی نے شرعی طریقہ کے مطابق ذبح کیا ہو اوروہ گوشت وقتِ ذبح سے لے کر ہمارے پاس پہنچنے تک کسی مسلمان یا کتابی کی نگاہ سے اوجھل ہو کرغیر کتابی کافر کے قبضہ میں نہ گیا ہو یااوجھل ہو کر غیر کتابی کافر کے قبضہ میں تو گیا ہو،لیکن معاملہ اس کی خبر ِ دیانت پر موقوف نہ ہوا ہو ، جیسا کہ کوئی مسلمان اپنے نوکر کو گوشت دےکرکسی  مسلمان کے پاس ہدیہ کے طورپر بھیجے،اوروہ کافرآکرمسلمان سے کہے کہ میرےمالک نے یہ گوشت تمہارے لیے ہدیہ بھیجاہے اورقرائن کی روسے اس کی اس  بات پرشک نہ ہوتاہوبلکہ غالب گمان اس کے سچاہونے کاہوتواس کی خبرمقبول ہے اوراس مسلمان کے لیے گوشت کھاناحلال ہے ۔ تو یہاں گوشت کافر کے قبضہ میں تو گیا ہے، لیکن اس کی حلت و حرمت کا معاملہ کافر کی خبرِ دیانت پر موقوف نہیں ہے کہ ہدیہ لانا، معاملات سے متعلق ہے ۔اورپھرجب یہ بات مان لی گئی کہ مسلمان کابھیجاہواہے تواب اس کے ضمن میں گوشت کی حلت بھی ثابت ہوجائے گی کہ کافرکی خبردیانات کے معاملے میں ضمنامقبول ہوتی ہے ،ابتداء مقبول نہیں ہوتی ۔

   اس تفصیل کے مطابق پوچھی گئی صورت کا جواب یہ ہے کہ خریدنااوربیچنایہ معاملات سے تعلق رکھتے ہیں ،دیانات سے تعلق نہیں رکھتے ۔ لہذاکافرنوکرکوگوشت لینے بھیجااوروہ آکرکہے کہ مسلمان سے گوشت خریدکرلایاہوں اورقرائن کی رو سے اس کافرکی اس بات پر شک نہ ہوتا ہو بلکہ غالب گمان اس کے سچاہونے کاہوتواس کی خبرمقبول ہے اوراب اس کے ضمن میں حلت بھی ثابت ہوجائے گی ۔

   فتاوی رضویہ میں ہے” اگر قرائن کی رو سے اس کافر کے اس قول میں شک پیدانہ ہو، ظن غالب اس کے صدق ہی کاہو، تو مسلمان کے لئے اس ذبیحہ کے کھانے میں کوئی حرج نہیں کہ ہدیہ لانا از قبیل معاملات ہے اور معاملات میں کافر کی بات مقبول، او ر جب یہ مان لیا گیا کہ یہ ذبیحہ فلاں مسلم کا بھیجا ہوا ہے، تو اس کے ضمن میں حلت بھی مسلم ہوگئی، اگر چہ ابتداء حلت، حرمت، طہارت، نجاست وغیرہا امور خالصہ دینیہ میں کافرکا قول مقبول نہیں۔(فتاوی رضویہ،ج 20،ص 286،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

   بہارشریعت میں ہے "اپنے نوکر یا غلام کو گوشت لانے کے لیے بھیجا، اگرچہ یہ مجوسی یا ہندو ہو وہ گوشت لایا اور کہتا ہے کہ مسلمان یا کتابی سے خرید کر لایا ہوں تو یہ گوشت کھایا جاسکتا ہے اور اگر اس نے آ کریہ کہا کہ مشرک مثلاً مجوسی یا ہندو سے خرید کر لایا ہوں تو اس گوشت کا کھانا حرام ہے کہ خریدنا بیچنا معاملات میں ہے اور معاملات میں کافر کی خبر معتبر ہے، اگرچہ حلَّت و حرمت دِیانات میں سے ہیں اور دیانات میں کافر کی خبر نامقبول ہے، مگر چونکہ اصل خبر خریدنے کی ہے اور حلت و حرمت اس مقام پر ضمنی چیزہے، لہٰذا جب وہ خبر معتبر ہوئی تو ضمناًیہ بھی ثابت ہوجائے گی اور اصل خبر حلت و حرمت کی ہوتی تو نامعتبر ہوتی۔"(بہار شریعت،ج 3،حصہ 16،ص 398،مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم