Ghair Muslim Doctor Se Ilaj Karwana Kaisa ?

غیر مسلم ڈاکٹر سے علاج کروانا

مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2161

تاریخ اجراء: 22ربیع الثانی1445 ھ/07نومبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     غیر مسلم حکیم سے علاج کروانا کیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   غیر مسلم ڈاکٹر اور حکیم سے علاج کروانے کے حوالے سے تفصیل یہ ہے کہ:

    عام حالات کہ جن میں بلا عذر شرعی کسی ناجائز کام مثلا نجس یا حرام چیز سے علاج ،عبادات کا ابطال یا ترک وغیرہ کا ارتکاب نہ کرنا پڑے،ایسی صورت میں  غیر مسلم سےخارجی  یا  ظاہری علاج کروانا  کہ جس میں وہ کوئی طبی خیانت و بد خواہی نہ کر سکے ،مطلقا جائزہے۔

   رہا داخلی علاج :کہ  جس میں طبی خیانت و بد خواہی کی گنجائش ہو،یہ بھی جائز ہے جب کہ  ماحول فسادات وتعصب کانہ ہواوریہ معلوم ہو کہ وہ مسلمانوں سے تعصب نہیں رکھتا اور دل اس سے علاج کروانے پر جمے ۔

   بحر الرائق میں ہے:” المريض يجوز له أن يستطب بالكافر فيما عدا إبطال العبادة “مریض کے لئے کافر سے علاج کروانا جائز ہے،جبکہ اس علاج سے عبادات کا ابطال لازم نہ آئے۔(بحر الرائق،ج02، ص34، دار الکتاب الاسلامی)

   فتاوی رضویہ میں ہے:” رہا کافر طبیب سے علاج کرانا خارجی یا ظاہر مکشوف علاج جس میں اس کی بدخواہی نہ چل سکے وہ تو لایألونکم خبالا  (وہ کافر تمھیں نقصان  پہنچانے میں کوئی کمی نہیں کریں گے۔ ) سے بالکل بےعلاقہ ہے اور دنیاوی معاملات میں بیع وشراء واجارہ واستئجار کی مثل ہے۔ ہاں اندرونی علاج جس میں اس کے فریب کو گنجائش ہو اس میں اگر کافروں پر یوں اعتماد کیا کہ ان کو اپنی مصیبت میں ہمدرد اپنا ولی خیر خواہ اپنا مخلص بااخلاص خلوص کے ساتھ ہمدردی کرکے اپنا ولی، دوست بنانے والا اس کی بیکسی میں اس کی طرف اتحاد کا ہاتھ بڑھانے والا جانا تو توبیشک آیہ کریمہ کا مخالف ہے اور ارشاد آیت جان کر ایسا سمجھا تو نہ صرف اپنی جان بلکہ جان وایمان وقرآن سب کا دشمن اور انھیں اس کی خبر ہوجائے اور اس کے بعد واقعی دل سے اس کی خیرخواہی کریں تو کچھ بعیدنہیں کہ وہ تو مسلمان کے دشمن ہیں اوریہ مسلمان ہی نہ رہا فانہ منہم  ( وہ انہی میں سے ہے۔ ت) ہوگیا،ان کی تو دلی تمنایہی تھی: قال تعالٰی ودوا لوتکفرون کما کفروا فتکونون سواء ۔  (اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا) ان کی آرزو ہے کہ کسی طرح تم بھی ان کی طرح کافر بنو تو تم اور وہ ایک سے ہوجاؤ،والعیاذ باﷲ تعالٰی  مگر الحمد ﷲ کوئی مسلمان آیہ کریم پرمطلع ہوکر ہر گز نہ جانے گا اور جانے تو آپ ہی اس نے تکذیب قرآن کی، بلکہ یہ خیال ہوتاہے کہ یہ ان کا پیشہ ہے اس سے روٹیاں کماتے ہیں ایسا کریں تو بدنام ہوں دکان پھیکی پڑے، کھل جائے تو حکومت کا مواخذہ ہو سزا ہو یوں بدخواہی سے بازرہتے ہیں تو اپنے خیر خواہ ہیں نہ کہ ہمارے، اس میں تکذیب نہ ہوئی، پھر بھی خلاف احتیاط و شنیع ضرور ہے۔“(فتاوی رضویہ، ج21، ص238، 239،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   مبارکپور اشرفیہ کے فیصلے میں ہے:” وہ حالات جن میں بلا عذر شرعی کسی ناجائز کام مثلا نجس یا حرام چیز سے علاج ، خطر ناک آپریشن، صوم وصلاۃ وغیرہ عبادات کا ابطال یا ترک اور حلق لحیہ وغیرہ کا ارتکاب نہ کرنا پڑے۔ ایسے عام حالات میں غیر مسلم ڈاکٹروں سےعلاج دو طرح کا ہوتا ہے :

   خارجی : جیسے جوڑوں کی مالش وغیرہ جس میں وہ کوئی طبی خیانت و بد خواہی نہ کر سکے۔

   داخلی: جس میں طبی خیانت و بد خواہی کی گنجائش ہو۔

   خارجی علاج :غیر مسلم سے مطلقا جائز ہے۔ جیسے اس سے خرید و فروخت جائز ہے۔

    داخلی علاج بھی جائز ہے جب کہ ماحول فسادات و تعصب کا نہ ہو، اور دیگر حالات میں بھی جب یہ معلوم ہو کہ وہ مسلمانوں سے تعصب نہیں رکھتا اور دل اس سے علاج کرنے پر جمے ۔ ‘‘(ملخص ازجدید فقہی مسائل کے بارے میں علمائے اہل سنت کی تحقیقات ج02،ص294، 295،اکبر بک سیلرز، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم