Gair Sahabi Ke Sath رضی اللہ عنہ Lagana Kaisa ?

غیر صحابی کے ساتھ رضی اللہ عنہ لگانا کیسا ؟

مجیب: مولانا فرحان احمد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1024

تاریخ اجراء: 04ربیع الاول1445 ھ/21ستمبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا "رضی اللہ عنہ" غیر صحابی کے لیے استعمال کر سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   غیر صحابی کے نام کےساتھ ”رضی اللہ عنہ “پڑھنا یا لکھنا شرعاً جائز ہے لیکن مستحب یہ ہےکہ صحابہ کرام کے نام ساتھ ترضّی کے صیغے مثلا”رضی  اللہ عنہ،رضوان اللہ علیہم“اورغیر صحابہ جیسے تابعین، اولیاء اللہ اور نیک بندوں کے نام کے ساتھ ترحّم کے صیغے مثلاً ”رحمۃ اللہ علیہ، علیہ الرحمہ “وغیرہ پڑھے جائیں۔

   در مختار  میں ہے:(يستحب الترضي للصحابةوالترحم للتابعين ومن بعدهم من العلماء والعباد وسائر الأخيار وكذا يجوز عكسه)وھو الترحم للصحابۃ والترضی للتابعین ومن بعدھم (علی الراجح) ۔یعنی :صحابہ کرام کے اسمائے گرامی کے ساتھ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنایا لکھنا مستحب ہے تابعین اور بعد والے علما ،اولیااور نیک بندوں کے لیے رحمۃ اللہ علیہ کہنا اور لکھنا مستحب ہے  ،اور اس کا الٹ بھی راجح قول کی بناء پر جائز ہے ،یعنی صحابہ کےلیے رحمۃاللہ علیہ اور دوسروں کےلیے رضی اللہ تعالیٰ عنھم۔(در مختار،جلد10،صفحہ520،دار المعرفہ بیروت)

   امام اہل سنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ میں ایک سوال کا جواب دیتےہوئے ارشاد فرماتےہیں : ” رضی اللہ عنھم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تو کہاہی جائےگا ،آئمہ  واولیاء وعلمائے دین کو بھی کہہ سکتےہیں۔(فتاویٰ رضویہ،جلد23،صفحہ390،  مطبوعہ رضا فاونڈیشن)

   فتاوٰی امجدیہ میں ہے:”بزرگان دین  کے ساتھ ترضی یعنی رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کہنااور لکھنا جائزہے ۔(فتاویٰ امجدیہ،حصہ 04،صفحہ 345، مکتبہ رضویہ کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم