Fiqh Ki Kitabon Mein Makrooh Se Makrooh e Tehrimi Murad Hai?

 

کتبِ فقہ میں مطلقاً مکروہ سے مکروہِ تحریمی مراد ہے؟

مجیب:مولانا محمد سجاد عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2994

تاریخ اجراء: 11صفر المظفر1446 ھ/17اگست2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میرا سوال یہ ہے  کہ فقہ کی کتابوں میں جہاں مطلقاً مکروہ کا ذکر ہوتا ہے کیا وہاں اس سے مراد مکروہ تحریمی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں فقہ کی کتابوں میں جہاں مطلقاً مکروہ کا ذکر ہوتا ہے تو  اس سے مکروہ تحریمی ہی مراد ہوتا ہےجبکہ مکروہ تحریمی کے خلاف کوئی قرینہ یادلیل نہ ہو،ہاں البتہ اگر کسی جگہ مکروہ تحریمی کے خلاف قرینہ یا دلیل موجود ہو تو اس صورت میں مکروہ تنزیہی مراد ہوگا۔

   حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختارمیں ہے "الكراهة إذا أطلقت لا سيما في كتاب الحظر تنصرف إلى التحريم"ترجمہ:کراہت کوجب مطلق رکھاجائے خاص طورپرحظرواباحت کے باب میں تواس سے مکروہ تحریمی مرادہوتی ہے ۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار،کتاب الحظروالاباحۃ،ج04،ص172،مطبوعہ:کوئٹہ)

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:”فقہا ء بارہا کراہت مطلق بولتے اور اُس سے خاص مکروہ تنزیہی یا تنزیہی وتحریمی دونوں کو عام مراد لیتے ہیں مگر یہ وہاں ہے کہ ارادہ کراہت تحریم سے کوئی صارف موجود ہو مثلاً دلیل سے ثابت یا خارج سے معلوم ہو کہ جسے یہاں مطلق مکروہ کہا مکروہ تحریمی نہیں یا جو افعال یہاں گنے اُن میں مکروہ تنزیہی بھی ہیں۔۔۔بے قیام دلیل ہمارے مذہب میں اصل وہی ارادہ کراہت تحریم ہے۔(فتاوی رضویہ،ج01،حصہ 02،ص918،رضافاونڈیشن ،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم