Father’s Day aur Mother’s Day Manane ka Shari Hukum

فادرڈے اور مدر ڈے منانا کیسا؟

مجیب:مولانا اعظم عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3245

تاریخ اجراء:03جمادی الاولیٰ1446ھ/06نومبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین  اس بارے میں کہ فادر ڈے مدر ڈے منانا کیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے مدر ڈے(Mother’s Day)اورفادر ڈے(Father’s Day) منانے میں شرعاً  کوئی حرج نہیں ہےلعدم المنع الشرعی(شریعت کے طرف سے اس کی ممانعت نہ ہونے کی وجہ سے)۔

   لیکن یہ بات واضح رہے کہ! ان دنوں کے منانے کایہ مقصدومطلب ہرگز نہیں ہوناچاہیے کہ صرف ایک مخصوص دن میں والدین کے ساتھ تھوڑی دیر بہت محبت وتعظیم والارویہ اپنالیاجائے اورپھرپوراسال جیسے چاہے ان کے ساتھ برتاؤکیاجائے،ان کی تعظیم،خدمت اور فرمانبرداری وغیرہ کوفراموش کردیاجائے،ان کاخیال نہ رکھاجائے وغیرہ  وغیرہ۔بلکہ ہمارے دین اسلام نے والدین کے  جوحقوق بیان فرمائے،یہ حقوق پوری زندگی کے لیے ہیں کہ  جس وقت، جس جگہ جوحق ان کابنتاہ وہ  احسن طریقے سے اداکیاجائے۔ والدین کے حقوق وہ نہیں کہ انسان ان کبھی بری الذمہ ہو۔

   جب جب ان کے ساتھ بات چیت کرنے  کاموقع آئے توادب واحترام کے دائرے میں رہتے ہوئے بات  چیت کی جائے ،کبھی ان کوجھڑکانہ جائے بلکہ ان کواف تک  کہناحرام ہے۔ان کے ساتھ نیک سلوک کرنے کاحکم ہے،شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ان کی  اطاعت وفرمانبرداری  بھی لازم ہے اوران کوراضی رکھنابھی لازم ہے کہ حدیث پاک کے مطابق ان کوراضی رکھنے سے جنت کامستحق اور ان کوناراض کرنے پرجہنم کامستحق ہوتاہے۔

   اطاعت کامطلب ہے کہ جب کسی بات کاحکم دیں توشریعت کی حدودمیں رہتے ہوئے اس پرعمل کرے۔

   اورراضی رکھنے کامطلب ہے کہ جوکام ان کوناگوارگزرے،شریعت کی حدودمیں رہتے ہوئے اس سے گریزکرے اگرچہ اس سے بچنے کاانہوں نے صراحتاحکم نہ دیاہو۔

   بلکہ ان کے حقوق ان کی وفات کے بعدبھی اولادکے ذمہ لازم آتے ہیں ۔ان سب کی تفصیل کے لیے فتاوی رضویہ کی جلدنمبر21میں موجود رسالہ"الحقوق لطرح العقوق"کامطالعہ کیاجائے۔

   چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(۲۴)ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے چھٹپن(چھوٹی عمر) میں پالا۔(پارہ15،سورہ بنی اسرائیل،الآیۃ:23-24)

   جامع ترمذی کی حدیث پاک ہے:"عن عبداللہ بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: رضا الرب في رضا الوالد، وسخط الرب في سخط الوالد"ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔(جامع الترمذی، جلد4،صفحہ310،حدیث نمبر1899، شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي ،مصر)

   سنن نسائی کی حدیث پاک ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی:"يا رسول الله اردت ان اغزو وقد جئت استشيرك، فقال:" هل لك من ام؟"قال:نعم، قال:" فالزمها، فإن الجنة تحت رجليها" ترجمہ: یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم! میں جہاد کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، اور آپ کے پاس آپ سے مشورہ لینے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اس سے پوچھا:کیا تمہاری ماں موجود ہے؟ اس نے کہا:جی ہاں، آپ نے فرمایا:انہیں کی خدمت میں لگے رہو، کیونکہ جنت ان کے دونوں قدموں کے نیچے ہے۔(سنن نسائی،جلد6،صفحہ11،حدیث نمبر3104،مكتب المطبوعات الإسلامية ،حلب)

   بہارشریعت میں ہے " ابن ماجہ نے ابوامامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، کہ ایک شخص نے عرض کی، یارسول اﷲ!(صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم)والدین کا اولاد پر کیا حق ہے؟ فرمایاکہ ''وہ دونوں تیری جنت و دوزخ ہیں۔''یعنی ان کو راضی رکھنے سے جنت ملے گی اور ناراض رکھنے سے دوزخ کے مستحق ہو گے۔" (بہارشریعت، ج03، حصہ16، ص553، مکتبۃ المدینہ)

   فتاوی رضویہ میں ہے" قلت، ولیس البران لاتعصیھما اذا صرحا بشی وتخا لفھما فی ماسوی ذٰلک ولکن البران لاتاتی مایکرھانہ وان لم یخاطباک فیہ بشی فانہ الطاعۃ والارضاء کلاھما واجبان والمعصیۃ والاسخاط جمیعا محرمان وھٰذا ن اعنی السخط والرضا لایختصان بما تقدما فیہ بصریح البیان کما لایخفی۔"ترجمہ:میں کہتاہوں:اوروالدین کے ساتھ نیکی یہ نہیں کہ جب وہ صراحتاکسی کام کاحکم دیں تواس میں ان کی نافرمانی نہ کرے اوراس کے علاوہ میں ان کی مخالفت کرتارہےبلکہ نیکی یہ ہے کہ جوکام ان کو ناگوار گزرے وہ نہ کرے اگرچہ انہوں نے اس کے متعلق تمہیں کوئی حکم نہ دیاہوکیونکہ والدین کی اطاعت اوران کوراضی رکھنا،دونوں لازم  واجب ہیں اورنافرمانی اورناراض کرنا،دونوں حرام ہیں اوریہ دونوں یعنی ناراض کرنا اور راضی کرنا،صرف اسی کے ساتھ خاص نہیں جہاں صراحتاحکم ہوچکاہوجیساکہ پوشیدہ نہیں۔(فتاوی رضویہ،ج10، ص678 ،679، رضافاؤنڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم