مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-9120
تاریخ اجراء: یکم ربیع الثانی 1446ھ /05 اکتوبر 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مغرب وعشاء کے درمیان سونا:
اگر کوئی شخص نمازِ مغرب ادا کر کے سوتا ہے، تو اِس کی دو صورتیں ہیں، اُسی کے اعتبار سے اِس وقت میں سونے کا حکم بھی جدا ہے۔
(1)اگر سونے والے کو کوئی بااعتماد جگانے والا نہ ہواور اُسے معمولی اندیشہ ہو کہ اگر سویا تو اِتنی طویل نیند سو جاؤں گا کہ نماز ِ عشاء کا مکمل وقت یا جماعت واجب ہونے کی صورت میں جماعتِ عشاء نکل جائے گی، تو ایسی صورت میں اُس وقت سونا ،مکروہِ تنزیہی اور شرعاً ناپسندیدہ ہے، لیکن اگر غالب گمان یا یقین ہو کہ سوتے رہنے سے نماز کا مکمل وقت یا جماعت نکل جائے گی اور صبح ہی آنکھ کھلے گی اور کوئی جگانے والا بھی نہیں ہے، تو پھر سونا شرعاً ناجائز اور گناہ ہے، کیونکہ یہ سراسر غفلت اور لاپرواہی ہے۔
(2)اگر سونے والے کو معلوم ہے کہ غفلت کی نیند نہیں سوؤں گااور اگر سویا بھی تو کوئی بااعتماد جگانے والا موجود ہے، جو جماعت کے وقت یا عشاء کی ادائیگی کے لیے جگا دے گا، تو ایسی صورت میں مغرب کے بعد سونے میں اصلاً کراہت نہیں ہے، کیونکہ کراہت کی علت جماعتِ عشاء یا وقت ِ عشاء نکلنے کا اندیشہ تھا، جب کسی بااعتماد جگانے والے کی صورت میں یہ اندیشہ ختم ہو گیا، تو کراہت بھی باقی نہیں رہے گی، بلکہ سونا مبا ح ہو گا۔
جب وقت یا جماعت نکلنے کا اندیشہ ہو،تو ایسی نیندسونا،مکروہ ہے،چنانچہ ابو عبداللہ امام محمد بن اسماعیل بخاری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:256ھ /870ء) روایت کرتے ہیں: ’’كان يكره النوم قبلها، والحديث بعدها‘‘ ترجمہ:نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نمازِ عشاء کی ادائیگی سے پہلے سونے اور عشاء کے بعد (بلامقصدِ صحیح) گفتگو کرنے کو ناپسند خیال فرماتے تھے۔(صحیح البخاری، جلد01، صفحہ 123، مطبوعہ دار طوق النجاہ، بیروت)
اِس روایت میں کراہت ”تحریمی“ درجہ کی نہیں ہے، کیونکہ بعض صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہم کسی جگانے والے کو متعین کر کے عام ایام اور بالخصوص رمضان المبارک میں مغرب کی نماز پڑھ کر سویا کرتے تھے، چنانچہ کراہتِ تحریمی نہ ہونے کے متعلق شارِح بخاری، علامہ بدرالدین عینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:855ھ/1451ء) لکھتےہیں:’’فدل على أن النهي ليس للتحريم لفعل الصحابة ‘‘ترجمہ: اِس روایت میں یہ رہنمائی موجود ہے کہ یہ کراہت اور منع کرنا تحریمی نہیں ہے، کیونکہ یہ بعض صحابہ کا عمل مبارک رہا ہے۔ (عمدۃ القاری، جلد05، صفحہ66، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی، بیروت)
حضرت ابن عمررَضِیَ اللہ عَنْہما بعض مرتبہ مغرب کے وقت کچھ دیر سویا کرتے اور گھر والوں کو بیدار کرنے کا حکم دے دیتے تھے،چنانچہ علامہ بدرالدین عینیرَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:855ھ/1451ء) لکھتے ہیں:’’أنه كان ربما ينام عن العشاء الآخرة ويأمر أن يوقظوه‘‘ ترجمہ:حضرت ابنِ عمررَضِیَ اللہ عَنْہما بعض اوقات نمازِ عشاء سے قبل سویا کرتے تھے اور اپنے اہلِ خانہ کو بیدار کرنے کا حکم دے دیتے تھے۔(عمدۃ القاری، جلد05، صفحہ66، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی، بیروت)
”المصنف لابن ابی شیبۃ“ میں ہے:’’كان الأسود لا يفطر في رمضان حتى يصلي، فكان ينام ما بين المغرب والعشاء‘‘ ترجمہ: حضرت اسود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ رمضان میں روزہ افطار نہ کرتے یہاں تک کہ نماز پڑھتے اور پھر مغرب وعشاء کے درمیان سو جایا کرتے تھے۔(المصنف لابنِ ابی شیبہ ، جلد02،صفحہ121، مطبوعہ مکتبۃ العلوم والحکم، المدینۃ المنورہ)
یہ دو روایات پیش کی ہیں۔ بعض دیگرصحابہ وتابعین سے بھی اِس وقت میں سونا منقول ہے۔ تفصیل کے لیے ”المصنف لابن ابی شیبۃ “ کے مندرجہ بالا حوالے کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
مغرب وعشاء کے درمیان سونے کی دونوں صورتوں کے متعلق علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:’’قال الطحاوي: إنما كره النوم قبلها لمن خشي عليه فوت وقتها أو فوت الجماعة فيها، وأما من وكل نفسه إلى من يوقظه فيباح له النوم ‘‘ ترجمہ:امام طحاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: عشاء کی نماز سے پہلے وقتِ مغرب میں سونا ایسے شخص کے لیے مکروہ ہے کہ جسے عشاء کا وقت نکل جانے یا جماعت فوت ہونے کا اندیشہ ہو، لہذا اگر کوئی کسی کی ذمہ داری لگا کر سوتا ہے کہ جو اُسے جگا دے گا، تو پھر اُس کے لیے مغرب پڑھ کر سونا مباح یعنی جائز ہے۔ (ردالمحتار مع درمختار، جلد 02، صفحہ 518 ، مطبوعہ دار الثقافۃ والتراث، دمشق)
اگر سونے کی صورت میں نماز فوت ہونے کا غالب گمان ہو ،تو پھرسونا، جائز نہیں، چنانچہ ”حاشیۃ ابن عابدین“ میں ہے:’’لو غلب على ظنه تفويت الصبح لا يحل؛ لأنه يكون تفريطا‘‘ ترجمہ: اگر نماز فجر کے فوت ہونے کا غالب گمان ہو، تو رات دير تک جاگنے کے بعد سونا، جائز نہیں، کیونکہ یہ جان بوجھ کر بلاعذر شرعی کوتاہی ہے۔(یعنی ایسے وقت پر سونا ،جائز نہیں، جب نماز فوت ہونے کا غالب اندیشہ ہو۔) (ردالمحتار مع درمختار، جلد 02، صفحہ 519 ، مطبوعہ دار الثقافۃ والتراث، دمشق)
صبح صادق سے طلوع آفتاب کے درمیان سونا:
نماز فجرادا کرنے کے بعد بلاضرورت سونا ،مکروہِ تنزیہی اور شرعاً ناپسندیدہ ہے۔ احادیث مبارکہ میں صبح صادق سے طلوع آفتاب کے درمیانی وقت کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ مخلوق میں رزق تقسیم فرماتا ہے، لہذا اس وقت میں سونے والا غفلت کرنے والوں میں سےہوجاتا ہے۔البتہ اگر کسی کو کوئی عذر ہو، مثلا ً: بیمار ہے یا بدن کے موافق نیند پوری نہیں ہوئی یا کسی سبب سے رات دیر تک جاگتا رہا اور اگر اب نہیں سوئے گا تو سارا دن کام کاج میں دشواری ہو گی، تو ایسے شخص کے حق میں فجر ادا کرنے کے بعد اُس وقت سونا مکروہ اور ناپسندیدہ بھی نہیں ہے۔
اِس وقت میں تقسیمِ رزق کے متعلق ”شُعَب الایمان“میں ہے:’’ مر بي رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم وأنا مضطجعة متصبحة فحركني برجله ثم قال: يا بنية قومي اشهدي رزق ربك ولا تكوني من الغافلين فإن اللہ يقسم أرزاق الناس ما بين طلوع الفجر إلى طلوع الشمس‘‘ ترجمہ:حضرت سیدتنا فاطمہ بنت محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وَرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میرےقریب سے گزرے اور میں صبح کے وقت سو رہی تھی۔ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے اپنے پاؤں مبارک سے ہلایا اور فرمایا:اے پیاری بیٹی!اٹھو اور اپنے رب سے حصولِ رزق کے لیے حاضر ہو جاؤ اور غفلت والوں میں سے نہ ہو، بے شک اللہ تعالیٰ فجر کا وقت شروع ہونے سے طلوعِ آفتاب کے درمیان مخلوقات کا رزق تقسیم فرماتا ہے۔ (شُعَب الایمان، جلد 04، صفحہ 181، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:’’دن کے ابتدائی حصہ میں سونا یا مغرب و عشا کے درمیان میں سونا ،مکروہ ہے۔‘‘(بھار شریعت، جلد03، حصہ16، صفحہ436، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
”الفقہ الاسلامی وادلتہ“ میں ہے:’’يكره ۔۔۔النوم بعد الفجر، لأنه وقت قسْم الأرزاق، كما ثبت في السنة ‘‘ترجمہ:فجر کا وقت شروع ہونے کے بعد سونا، مکروہ اور ناپسندیدہ ہے، کیونکہ یہ تقسیمِ رزق کا وقت ہے، جیسا کہ روایت سے ثابت ہے۔(الفقہ الاسلامی وادلتہ، جلد01، صفحۃ 470، مطبوعہ کوئٹہ)
البتہ اگر کوئی کسی عذر یا معقول وجہ کے سبب سوئے، تو اُس کے حق میں کراہت نہیں ہے، چنانچہ ابو سعید محمد بن مصطفیٰ خادمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1176ھ/1762ء) اپنی کتاب ”اَلْبُریقۃ المحمودیۃ شرح الطریقۃ المحمدیۃ“ میں”بلاعذر“ کی قید کے ساتھ لکھتے ہیں:’’النوم في أول النهار ۔۔۔بلا عذر، فإنه مكروه‘‘ ترجمہ:عذرِ معقول نہ ہو، تو شروع دن یعنی وقتِ فجر میں سونا ،مکروہ ہے۔(اَلْبُریقۃ المحمودیۃ شرح الطریقۃ المحمدیۃ، جلد04، صفحہ 202، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کنڈا لگا کر بجلی استعمال کرنے کاحکم
غیر محرم لے پالک سے پردے کا حکم
جوان استاد کا بالغات کو پڑھانےکا حکم؟
شوہر کے انتقال کے بعد سسر سے پردہ لازم ہے یانہیں؟
کیا دلہن کو پاؤں میں انگوٹھی پہنانا جائز ہے؟
مرد کا جوٹھا پانی پینے کا حکم
محرم کے مہینے میں شادی کرنا کیسا؟
موبائل ریپئرنگ کے کام کی وجہ سے ناخن بڑھانا کیسا؟