مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری
فتوی نمبر: Nor-12163
تاریخ اجراء: 14 شوال المکرم1443 ھ/16مئی 2022 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس
مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص خلوت میں کسی نیکی
کا عادی ہو (مثلاً نعت سن کر روتا ہو
یا دعا میں روتا ہو) تو اب اگر وہ کسی ایسی
جگہ ہو کہ جہاں لوگ اسے دیکھ رہے ہوں، اور وہ اپنے معمول کے مطابق اس نیک
کو عمل کو بجالائے جس پر اس کے دل میں یہ خیالات آئیں کہ
فلاں مجھے دیکھ رہا ہے، وہ مجھے نیک سمجھے گا۔ تو کیا ان
خیالات کا آنا بھی ریاکاری
میں شمار ہوگا؟
نیز ریاکاری کے خیالات آنے کی صورت میں شریعت
کی کیا تعلیمات ہیں؟ کیا ان خیالات کی
وجہ سے نیکی کو ترک کردینا چاہیے یا پھر اس نیکی
کو بجا لانا چاہیے؟؟ رہنمائی
فرمادیں۔سائلہ: بنت علی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
بندہ جب عبادت اللہ کے
لئے کر رہا ہے اور خودنمائی کا صرف خیال اور وسوسہ آتا ہے اس پر تو
پکڑ نہیں لیکن اگر یہ وسوسہ پختہ ہو جائے اور بندہ اس کی
پیروی کرے جیسا کہ پوچھی گئی صورت میں بندہ
اپنی عبادت میں یہ تصور قائم کر لے کہ فلاں فلاں بھی
دیکھ رہا ہے، تویہ خیالات دل میں آئیں کہ
مزید گریا کرنا اچھا ہے یا فلاں نے بھی مجھے دیکھا
ہے وہ مجھے نیک سمجھے گا فائدہ ہوگا۔اس طرح کے خیالات جب پختہ
ہو جائیں اور بندہ دورانِ عبادت ان
خیالات پر عمل کرے تو پھر یہ خیالات ضرور اس عبادت میں خلل پیدا کریں گے۔
لہذا ان خیالات کی پیروی کرتے ہوئے دورانِ عبادت بندہ جو
بھی اضافہ کرے گا وہ اضافہ ریاکاری میں شمار ہوگا، فقہائے
کرام نے اس صورت کو ریاکاری کی دوسری قسم میں شمار
فرمایا ہے۔
واضح ہوا کہ صورتِ مسئولہ میں مطلقاً ان خیالات کے آنے پر تو ریاکاری
کا حکم نہیں لگے گا بشرطیکہ بندہ ان خیالات کی
پیروی نہ کرے، کیونکہ ریاکاری
سے مراد”اللہ عزوجل کی رضا کے علاوہ کسی اور نیت سے عبادت کرنا“ہے،
اور فقط خیالات آنے کی صورت میں ایسا کچھ بھی نہیں۔
ہاں! فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق ایسے
موقع پر وہ شخص محض ان خیالات کی وجہ سے اس نیکی کو ترک نہ
کرے بلکہ ان خیالات کو جھٹلاتے ہوئے اس نیک عمل کو بجالائے اور ریاکاری
کے خیالات آنے پر اللہ عزوجل کی بارگاہ میں استغفار کرے۔ مزید
اللہ عزوجل کی رضا اور اخلاص کے
حصول کے لیے دعا بھی مانگتا رہے کہ دعا کو حدیث میں مؤمن
کا ہتھیار قرار دیا گیا ہے، ان شاء اللہ اس صورت میں غیبی
مدد ہوگی۔
ریاکاری
کی تعریف بیان کرتے ہوئے علامہ ابن حجر ہیتمی
علیہ الرحمہ "الزواجر"میں فرماتے ہیں:”الریاء ارادۃ
العامل بعبادتہ غیر وجہ اللہ تعالیٰ کان یقصد اطلاع الناس
علیٰ عبادتہ و کمالہ حتیٰ یحصل لہ منھم نحو مال او
جاہ او ثناء۔“یعنی ریاکاری سے مراد یہ ہے
کہ عمل کرنے والے کا اپنی عبادت سے مقصود غیر اللہ کی رضا حاصل
کرنا ہو، اس طرح کہ عبادت سے اس کا مقصد یہ ہو کہ لوگ اس کی عبادت اور
کمال پر مطلع ہوں تاکہ اسے لوگوں کی جانب سے تعریف یا جاہ
یا مال حاصل ہو۔ (الزواجرعن اقتراف الکبائر، ج 01، ص 69، دار الکتب
العلمیہ بیروت لبنان، ملخصاً)
دورانِ
عبادت ریاکاری کے خیالات کی پیروی کرتے ہوئے
عبادت میں جو اضافہ کیا جائے، اس کے متعلق احیاء العلوم
میں منقول ہے: ”(الرابعۃ) ان
یکون اطلاع الناس مرجحاً و مقویاً لنشاطہ و لو لم یکن لکان لا یترک العبادۃ، و لو کان قصد
الریاء وحدہ لما اقدم علیہ، فالذی نظنہ۔ والعلم عند اللہ۔
انہ لا یحبط اصل الثواب، ولکنہ ینقص منہ او یعاقب علی
مقدار قصد الریاء و یثاب علی مقدار قصد الثواب“یعنی ریاکاری کے ارادے
سے عبادت کرنے کا چوتھا درجہ یہ ہے
لوگوں کا اس کے عمل سے باخبر ہونا اسے
عمل کرنے پر مزید چست کردے اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر
بھی وہ عمل کو ترک نہ کرے اور اگر اس کا مقصد محض ریاکاری ہو تو
یہ عمل ہی نہ کرے۔ اللہ عزوجل اس کے متعلق بہتر جانتا ہے
لیکن ہمارا خیال ہے کہ اس کا ثواب ضائع نہ ہوگا مگر تھوڑا کم ہوجائے
گا یا پھر جتنی ریاکاری تھی اتنا مؤاخذہ ہوگا اور
جتنا ارادہ ثواب کا تھا اتنا ثواب ہوگا۔ (احیاء العلوم، ج 03، ص 281،
مکتبۃ الصفا، القاھرۃ)
رد المحتار میں ہے:”أما
لو عرض له ذلك في أثنائها۔۔۔۔إن زاد في تحسينها بعد ذلك
رجع إلى القسم الثاني، فيسقط ثواب التحسين بدليل ما روي عن الإمام فيمن أطال الركوع
لإدراك الجائي لا للقربة حيث قال: أخاف عليه أمرا عظيما أي الشرك الخفي كما قاله
بعض المحققين۔“یعنی اگر کسی شخص کو
دورانِ عبادت ریاکاری کے خیالات
آئیں۔۔۔۔تو اب اگر ان خیالات سے اس عبادت کی
حسن و خوبی میں اضافہ ہوا تو یہ ریاکاری کی
دوسری قسم کی طرف رجوع ہوگا، پس اس حسن و خوبی کا ثواب ساقط ہوگا اس پر دلیل وہ ہے جو امام
اعظم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایسے شخص کے بارے میں کہ جس نے رکوع کو کسی
آنے والے شخص کے لیے طول دیا نہ کہ قربت کے لیے ایسا
کیا تو اس پر امام نے فرمایا کہ میں اس پر عظیم امر
یعنی شرک خفی کا خوف کرتا ہوں، جیسا کہ بعض محققین
نے ایسا فرمایا ہے۔“ (رد المحتار
مع الدر المختار، کتاب الحظر و الاباحۃ، ج 09، ص 702-701، مطبوعہ کوئٹہ،
ملتقطاً)
بہارِ شریعت میں
ہے:”ریا کی دو
صورتیں ہیں۔۔۔۔ دوسری صورت یہ ہے
کہ اصل عبادت میں ریا نہیں، کوئی ہوتا یا نہ ہوتا
بہرحال نماز پڑھتا مگر وصف میں ریا ہے کہ کوئی دیکھنے
والا نہ ہوتا جب بھی پڑھتا مگر اس خوبی کے ساتھ نہ پڑھتا۔
یہ دوسری قسم پہلی سے کم درجہ کی ہے اس میں اصل
نماز کا ثواب ہے اور خوبی کے ساتھ ادا کرنے کا جو ثواب ہے وہ یہاں
نہیں کہ یہ ریا سے ہے اخلاص سے نہیں۔ کسی
عبادت کو اخلاص کے ساتھ شروع کیا مگر اثناء عمل میں ریا
کی مداخلت ہوگئی تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ ریا سے
عبادت کی بلکہ یہ عبادت اخلاص سے ہوئی، ہاں اس کے بعد جو کچھ
عبادت میں حسن و خوبی پیدا ہوگئی وہ ریا سے
ہوگی اور یہ ریا کی قسم دوم میں شمار
ہوگی۔ “ (بہارِ شریعت، ج 03، ص
637، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)
محض
ریاکاری کے خیالات کی وجہ سے بندہ عبادت کو ترک نہ کرے ۔
جیسا کہ درِ مختار میں ہے :”ولا يترك لخوف دخول الرياء لأنه أمر موهوم“ یعنی محض ریا کاری
داخل ہونے کے خوف سے نیک عمل کو ترک نہ کرے، کیونکہ یہ
ایک امر موہوم ہے۔
(ولا يترك) کے تحت فتاویٰ
شامی میں ہے:”أي لو أراد أن يصلي أو يقرأ فخاف أن
يدخل عليه الرياء فلا ينبغي أن يترك لأنه أمر موهوم أشباه عن الولوالجية. وقد سئل
العارف المحقق شهاب الدين بن السهروردي عما نصه: يا سيدي إن تركت العمل أخلدت إلى
البطالة وإن عملت داخلني العجب فأيهما أولى؟ فكتب جوابه: اعمل واستغفر الله من
العجب اهـ فتأمل “ترجمہ: ”یعنی اگر کوئی
شخص نماز پڑھنے یا تلاوت کرنے کا ارادہ کرے اور اسے اس بات کا خوف ہو کہ اس
کے دل میں ریاء داخل ہوگی تو یہ بات مناسب نہیں ہے
کہ وہ اس نیک عمل کو ترک کردے، کیونکہ یہ ایک امر موہوم
ہے، "اشباہ" میں "ولوالجیہ" کے حوالے سے مذکور
ہے۔ عارف محقق شہاب الدین بن سہروردی علیہ الرحمہ سے سوال
ہوا جس کی عبارت یہ ہے کہ یاسیدی اگر میں عمل
کو چھوڑدوں تو سستی طاری ہوجاتی ہے اور اگر عمل کرتا ہوں تو
میرے دل میں عجب داخل ہوتا ہے، تو ان دونوں میں سے میرے
لیے کیا چیز بہتر ہے؟ اس کے جواب میں آپ علیہ الرحمہ
نے لکھا کہ "تو عمل کر اور اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اور اس
ریاکاری کے خیال سے استغفار کر الخ"۔ پس تم خوب غور
کرو۔“ (رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ،
ج 02، ص 152-151، مطبوعہ کوئٹہ)
بہارِ
شریعت میں ہے:”نماز خلوص کے ساتھ پڑھ رہا تھا، لوگوں کو دیکھ کر یہ
خیال ہوا کہ ریا کی مداخلت ہو جائے گی يا شروع کرنا
چاہتا تھا کہ ریا کی مداخلت کا اندیشہ ہوا تو، اس کی وجہ
سے ترک نہ کرے، نماز پڑھے اور استغفار کرلے۔“(بہارِ شریعت، ج 01، ص
500، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
نوٹ: ریاکاری سے متعلق مزید معلومات کے لئےمکتبۃ
المدینہ کی مطبوعہ”احیاء العلوم، جلد 3، صفحہ 820 تا 870“سے”ریاکاری
کی مذمت کا بیان“پڑھنامفید رہے گا۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کنڈا لگا کر بجلی استعمال کرنے کاحکم
غیر محرم لے پالک سے پردے کا حکم
جوان استاد کا بالغات کو پڑھانےکا حکم؟
شوہر کے انتقال کے بعد سسر سے پردہ لازم ہے یانہیں؟
کیا دلہن کو پاؤں میں انگوٹھی پہنانا جائز ہے؟
مرد کا جوٹھا پانی پینے کا حکم
محرم کے مہینے میں شادی کرنا کیسا؟
موبائل ریپئرنگ کے کام کی وجہ سے ناخن بڑھانا کیسا؟