مجیب: عبدہ المذنب محمد نوید چشتی عفی
عنہ
فتوی نمبر: WAT-1327
تاریخ اجراء: 09جمادی الاخریٰ1444
ھ/02جنوری2023ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
دواکے
طور پر اونٹ یا کسی اور جانور
کا پیشاب پینا کیسا ہے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ہمارے نزدیک علاج کے طور پر یا کسی
دوسرے مقصد کے لیے کسی بھی
جانور کا پیشاب پینا جائز نہیں،کیونکہ
یہ ناپاک وحرام ہوتا ہے۔ اوراس سے شفابھی یقینی
نہیں اورپھراس کےمتبادل حلال وجائزدوائیں عام طورپر موجودہوتی ہیں
۔
اورایک
روایت میں جوآیاہے کہ ایک موقع پربیمارافرادکواونٹ
کے پیشاب پینے کاحکم فرمایاگیاتواس کاجواب یہ ہے کہ
حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کوبذریعہ وحی اس بات
کایقینی علم تھاکہ ان کاعلاج اس میں ہے ،اس لیے
اجازت عطافرمائی جبکہ ہمارے پاس یقینی علم کاکوئی
ذریعہ نہیں ۔اوریاپھریہ روایت منسوخ ہے اس
روایت کی وجہ سے کہ جس میں پیشاب سے بچنے کاحکم فرمایاگیاہے
۔
مشکوۃ
المصابیح میں حدیث پاک ہے کہ :”عن ابن عباس قال مر النبي صلى الله عليه وسلم بقبرين فقال إنهما ليعذبان
وما يعذبان في كبير أما أحدهما فكان لا يستتر من البول - وفي رواية لمسلم: لا
يستنزه من البول - وأما الآخر فكان يمشي بالنميمة ثم أخذ جريدة رطبة فشقها نصفين
ثم غرز في كل قبر واحدة قالوا يا رسول الله لم صنعت هذا قال لعله يخفف عنهما ما لم
ييبسا“ترجمہ :حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما
سے روایت ہے کہ نبی صلی ا ﷲ علیہ وسلم دو قبروں پر
گزرے تو فرمایا کہ یہ دونوں عذاب دئیے جارہے ہیں اورکسی
بڑی چیز میں عذاب نہیں دئیےجارہے ان میں سے ایک
تو پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور مسلم کی روایت
میں ہے کہ پیشاب سے پرہیز نہ کرتا تھا اور دوسرا چغل خوری
کرتا پھرتا تھا ،پھر آپ نے ایک ہری
تر شاخ لی اور اسے چیرکر دوحصے فرمائے پھر ہرقبر میں ایک
گاڑ دی لوگوں نے عرض کیا یارسول اﷲ آپ نے یہ کیوں
کیا،تو فرمایا کہ شاید جب تک یہ نہ سوکھیں تب تک ان
کا عذاب ہلکا ہو ا۔(مشکوۃ المصابیح،جلد01،صفحہ110،مطبوعہ
بیروت)
اس حدیث
پا ک کے تحت مراۃ المناجیح میں ہے :”حلال جانوروں کا پیشاب نجس ہے جس سے
بچنا واجب۔دیکھو اونٹ کا چرواہا اونٹ کے پیشاب کی چھینٹوں
سے پرہیز نہ کرنے کی وجہ سے عذاب میں گرفتار ہوا۔“ (مرأۃ المناجیح،جلد 01، صفحہ260، نعیمی
کتب خانہ )
حرام
چیز سے شفا کے متعلق جامع صغیر کی حدیث
پاک ہے:”ان اللہ
تعالی لم یجعل شفاءکم فیما حرم علیکم“ ترجمہ :بے شک اللہ پاک نے ان چیزوں میں
تمہاری شفاء نہیں رکھی جو اس نےتم پر حرام کی ہیں۔ ( فیض
القدیر شرح جامع صغیر،جلد06،صفحہ252،مطبوعہ مصر)
ہدایہ
میں ہے” وتأويل ما روي أنه عليه الصلاة والسلام عرف
شفاءهم فيه وحيا ثم عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى لا يحل شربه للتداوي ولا لغيره
لأنه لا يتيقن بالشفاء فيه فلا يعرض عن الحرمة“ ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ تعالی
علیہ وآلہ وسلم سے جو مروی ہے کہ (آپ
صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے عرینہ والوں کو
بطور علاج اونٹوں کے پیشاب پینے کا حکم فرمایاتو)اس کی تاویل
یہ ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے وحی کے ذریعے
جان لیا تھا کہ ان کی شفاء اس میں ہے۔پھر امام اعظم ابو
حنیفہ علیہ الرحمۃ کے نزدیک اونٹ کا پیشاب پینا علاج کے طور پر
یا اس کے علاوہ کسی اورمقصدکے
لئے ،حلال نہیں کیونکہ اس کے ذریعے شفاء کا حصول یقینی
نہیں تو حرمت سےچشم پوشی نہیں کی جائے گی۔(ہدایہ،کتاب الطھارات،ج 1،ص 24،دار احیاء
التراث العربی،بیروت)
کمال
الدرایۃ وجمع الروایۃ والدرایۃ ،شرح ملتقی
الابحر میں ہے”قلنا: إنه صلی اللہ
تعالی علیہ وآلہ وسلم عرف
شفاءهم فيه وحياً، ولم يوجد في زماننا، أو أنه منسوخ بحديث «استنزهوا من البول؛
فإن عامة عذاب القبر منه صححه ابن خزيمة“ترجمہ:(حدیث
عرینہ ) کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی
اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے وحی سے جان لیا تھا کہ ان کی
شفاء اسی میں ہے اور یہ ہمارے زمانے میں موجود نہیں،یا
حدیث عرینہ، اس حدیث سے منسوخ ہے کہ نبی کریم صلی
اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:پیشاب سے بچو کہ عام
طور پر عذاب قبر اسی سے نہ بچنے کی بناء پر ہوتا ہے۔ابن خزیمہ
نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا۔ (کمال الدرایۃ وجمع الروایۃ
والدرایۃ ،کتاب الطھارۃ،ج 1،ص 125،دار الکتب العلمیۃ،بیروت
)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کنڈا لگا کر بجلی استعمال کرنے کاحکم
غیر محرم لے پالک سے پردے کا حکم
جوان استاد کا بالغات کو پڑھانےکا حکم؟
شوہر کے انتقال کے بعد سسر سے پردہ لازم ہے یانہیں؟
کیا دلہن کو پاؤں میں انگوٹھی پہنانا جائز ہے؟
مرد کا جوٹھا پانی پینے کا حکم
محرم کے مہینے میں شادی کرنا کیسا؟
موبائل ریپئرنگ کے کام کی وجہ سے ناخن بڑھانا کیسا؟