Dant Nikalwane Ke bad Khoon Halaq Se Niche Utar Jaye To Kya Hukum Hai ?

دانت نکلوانے کے بعد آنے والا خون حلق سے نیچے اتر جائے تو کیا حکم ہے ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Sar-7710

تاریخ اجراء:      10 جمادی الآخر 1443ھ/14 جنوری 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلہ کے بارے میں کہ دانت نکالنے کے بعد بعض اوقات 24 سے 48 گھنٹے تک زخم سے خون رِستا رہتا ہے، ایسی صورت میں مریض پر کیا شرعی ذمہ داری ہے؟ اگر بلا قصد خون حلق سے اُتر جائے، تو  کیا اِس صورت میں  اُسے گناہ ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   دانت نکلوانے کے بعد جو خون رِستا ہے، اُس کے متعلق مریض پر لازم ہے کہ  اُس کے حلق تک پہنچنے سے مکمل احتیاط کرے، یعنی جب بھی منہ میں خون محسوس ہو، اُسے تھوکتا رہے،  نگلنے کی ہر گز اجازت نہیں ہے، مزید یہ کہ ایسی صورتِ حال سے بچنے کے لیے جو  اَدویات یا ٹوتھ پیسٹ (Tooth Paste)دستیاب ہیں، اُنہیں استعمال کرے، البتہ اگر تمام احتیاطوں  اور طبی ہدایات پر عمل کے باوجود بلاقصد خون کے کچھ اجزاء حلق میں اُتر جائیں تو اِس صورت میں مریض پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔

   منہ سے نکلنے والے خون  کو بالقصد نگل جانا حرام ہے،  چنانچہ خون کی حرمت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌترجمہ کنزالعرفان:’’اس نے تم پر صرف مردار اور خون اور سُور کا گوشت اور وہ جانور حرام کیے ہیں،جس کے ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام بلند کیا گیا، تو جو مجبور ہوجائے حالانکہ وہ نہ خواہش رکھنے والا ہو اور نہ ضرورت سے آگے بڑھنے والاہو ،تو اس پر کوئی گناہ نہیں ،بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ (پارہ 2،سورۃالبقرہ ، آیت173)

   ہاں اگر تمام تر احتیاطوں کے باوجود خون حلق سے اُتر جائے، تو اُس بندے پر کوئی گناہ نہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿ لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾ترجمہ کنزالعرفان:’’ اللہ کسی جان پر اس کی طاقت کے برابر ہی بوجھ ڈالتا ہے۔‘‘(پارہ3،سورۃ البقرہ،  آیت286)

   ایک مقام پر ہے: ﴿وَ مَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ﴾ترجمہ کنزالعرفان:’’ اور تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی۔‘‘(پارہ17،سورۃ الحج،   آیت78)

   ایک جگہ فرمایا گیا: ﴿ یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْكُمْ وَ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا ترجمہ کنزالعرفان:’’اللہ چاہتا ہے کہ تم پرآسانی کرے اور آدمی کمزور بنایا گیا ہے۔‘‘ (پارہ5،سورۃ النساء،  آیت28)

   مکلف ہونا استطاعت پر موقوف ہوتا ہے، چنانچہ فرمایا گیا: ﴿فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ﴾ترجمہ کنزالعرفان:’’تو اللہ سے ڈرو، جہاں تک تم سے ہو سکے۔‘‘ (پارہ28،سورۃ التغابن،  آیت16)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم