Dam Ya Bagir Dam Wala Kala Dhaga Bandhna ?

ہاتھ یا پاؤں میں  دم کیا ہوا یا بغیر دم کیا ہوا کالا ڈورا پہننا

مجیب: مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-614

تاریخ اجراء: 03شعبان المعظم 1443ھ/07مارچ 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ہاتھ یا پاؤں میں  دم کیا ہوا یا بغیر دم کیا ہوا کالا ڈورا پہننا کیسا ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ہاتھ یا پاؤں میں دم کیا ہوا دھاگا پہننا جائز ہے ۔ بغیر دم کیا ہوادھاگا اگر کسی مقصد کےلیے مثلاً کسی چیز کو یاد رکھنے کے لیے پہنا تو یہ بھی جائز ہے،اوراگر بغیر کسی غرض صحیح کے باندھا تو عبث ومکروہ ہے۔

   دم کی ہوئی کوئی چیز یا ڈوری ہاتھ یا پاؤں میں باندھنے کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث مبارکہ ہے جو کہ معرفۃ الصحابہ میں مذکور ہے :” عن ابن ثعلبة، أنه أتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، ادع الله لي بالشهادة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ائتني بشعرات» قال: فأتاه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «اكشف عن عضدك» قال: فربطه في عضده، ثم نفث فيه، فقال: «اللهم حرم دم ابن ثعلبة على المشركين المنافقين»“ ترجمہ: حضرت ابن ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ عزوجل سے میرے لیے شہادت کی دعا کیجئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے فرمایا میرے پاس چند بال لاؤ۔ وہ بال لائے گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن ثعلبہ رضی اللہ عنہ کو فرمایا: اپنی کلائی کھولو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کلائی پر یہ بال باندھ دیئے ۔ پھر اس میں پھونک ماری ۔ پھر فرمایا: اے اللہ عزوجل! ابن ثعلبہ کا خون مشرکین و منافقین پر حرام فرما دے۔ (معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم ، ج 6، ص 3056،ریاض)

   مجمع الانھر میں ہے:”(والرتم) وهو الخيط الذي يعقد على الأصبع لتذكر الشيء (لا بأس به) ؛ لأنه ليس بعبث لما فيه من الغرض الصحيح وهو التذكر عند النسيان أما شد الخيوط والسلاسل على بعض الأعضاء فإنه مكروه لكونه عبثا محضا أو حاصله أن كل ما فعل على وجه التجبر فهو مكروه وبدعة وما فعله لحاجة وضرورة لا يكره وهما نظير التربع في الجلوس والاتكاء“ ترجمہ:رتم یعنی وہ دھاگا جو کسی چیز کو یاد رکھنے کےلیے باندھا اس میں حرج نہیں ؛ کیونکہ یہ عبث نہیں کہ اس میں غرض صحیح ہے اور وہ یہ کہ بھول جانے پر یاد آجائے، بہر حال بعض اعضا میں دھاگے اور زنجیریں باندھنا تو وہ مکروہ ہے کہ وہ عبث محض ہے یا اس کا حاصل یہ ہے کہ ہر وہ فعل جو تکبر کے طور پر ہو تو وہ مکروہ و بدعت ہے اور جو کسی حاجت و ضرورت کی وجہ سے ہو وہ مکروہ نہیں اور یہ دونوں بیٹھنے میں تربع(چار زانوں بیٹھنے ) اور تکیہ لگانے کی مثل ہیں ۔ (مجمع الانھر،ج2، ص 538،بیروت)

   بہار شریعت میں ہے :" یادداشت کے لیے یعنی اس غرض سے کہ بات یاد رہے بعض لوگ رومال یا کمر بند میں گرہ لگالیتے ہیں یا کسی جگہ انگلی وغیرہ پر ڈورا باندھ لیتے ہیں، یہ جائز ہے اور بلاوجہ ڈورا باندھ لینا مکروہ ہے۔ "(بہار شریعت، ج3،ص419،مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم