Customers Ke Bache Hue Khane Ka Hukum

کسٹمرز کے بچے ہوئے کھانے کا حکم

مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2571

تاریخ اجراء: 07رمضان المبارک1445 ھ/18مارچ2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ہمارے ریسٹورنٹ پر لوگ کھانا کھانے آتے ہیں جب پیٹ بھر کر کھالیتے ہیں تو کچھ ان کا بچ جاتا ہے اور وہ ایسے ہی چھوڑ کر چلے جاتے ہیں کیا وہ کھانا ہم خود کھا  یا کسی کو کھلاسکتے ہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں  وہ بچا ہوا کھانا خود بھی کھاسکتے ہیں اور کسی دوسرے کو بھی کھلا سکتے ہیں جیسے بعض ریسٹورنٹ والے یہ کھانا فقیروں کو دے دیتے ہیں ،کیونکہ ایسی صورت میں جو کھانا، لوگ چھوڑکر جاتے ہیں ،وہ اس سے بالکل اعراض کرلیتے ہیں،اگران کو کھانا چاہئے ہوتاتووہ اس کو پارسل کروالیتے ،لہذا ان لوگوں کا اس طرح یہ کھانا چھوڑ کر چلے جانا دلالۃ ان کی طرف سے اجازت ہے اور یہ اس معمولی لقطہ کے حکم میں ہے جس کواپنے استعمال میں لاناہے ۔

   چنانچہ علامہ ابن نجیم  مصری علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں : فإن كانت اللقطة شيئا يعلم أن صاحبها لا يطلبها كالنواة وقشر الرمان يكون إلقاؤه إباحة حتى جاز الانتفاع به من غير تعريف ولكنه يبقى على ملك مالكه۔۔۔ وفي البزازية لو وجدها مالكها في يده له أخذها “ترجمہ:اگر لقطہ ایسی چیز ہو جس کے بارے میں معلوم ہو کہ اس کا مالک اسے تلاش نہیں کرے گا جیسے  بیج اور انار کے چھلکے ،تو ان چیزوں کا پھینک دینا اباحت ہے، یہاں تک کہ تشہیر کے بغیر اس سے نفع اٹھانا جائز ہے،لیکن یہ  چیز اب بھی بدستور مالک کی ملکیت میں رہے گی۔بزازیہ میں ہے اگر اس کا مالک وہ چیز اٹھانے والے کے ہاتھوں میں پائے تو واپس لے سکتا ہے۔(بحر الرائق،کتاب اللقطۃ،ج 5،ص 165، دار الكتاب الإسلامي)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم