Current Account Par Free Services Lena Kaisa ?

اکاؤنٹ میں رقم مینٹین رکھنے کی شرط کے بغیر مفت  سہولیات لینا کیسا ؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-0085

تاریخ اجراء:27ربیع الاول1445ھ/14 اکتوبر3 202ء

مرکزالاقتصادالاسلامی

Islamic Economics Centre (DaruliftaAhlesunnat)

(دعوت اسلامی-دارالافتاءاہلسنت)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شر ع متین اس مسئلے میں کہ ایک اسلامی بینک کے تحت ایک کرنٹ اکاؤنٹ (Current Account)  کھلتا ہے جس میں فری    چیک بک  (Free Cheque book)،فری ٹرانزیکشن  سروس (Free Transaction Service)، فری پے آرڈر (Free Pay Order)،فری انٹر بینکنگ سروسز (Free Inter-Banking Services) تمام کرنٹ اکاؤنٹ ہولڈرز  (Current Account Holders)کو دی جاتی ہیں اور  یہ فیسیلٹیز (Facilities) حاصل کرنے کے لئے  اکاؤنٹ مینٹین (Maintain) رکھنے کی بھی شرط نہیں ہے۔کیا ایسا کرنٹ اکاؤنٹ کھلوانا،  جائز ہے؟ اور کیا یہ فری سروسز   (Free Services)سود میں داخل تو نہیں ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی سہولیات اگر تمام ہی اکاؤنٹ ہولڈرز (Account Holders)کو دی جاتی ہیں،چاہے اکاؤنٹ میں  رقم موجود ہو یا نہ ہو تو یہ سہولیات  (Benefits)قرض سے مشروط نہیں ہیں،  ان کا لینا جائز ہے ۔

   ہاں وہ سہولیات(Benefits) جو   اس شرط پر دی جائیں کہ کرنٹ اکاؤنٹ میں اتنی رقم ہو  یا سودی بینک ہے تو وہ کہے سیونگ اکاؤنٹ میں اتنی رقم ہو  تب یہ سہولیات (Benefits)ملیں گی تو  ایسی سہولیات(Benefits) کا حاصل کرنا بحکم حدیث ناجائز و حرام ہے ۔

   قرض پر مشروط نفع حرام ہے ۔حدیث شریف میں ہے:”كل قرض جر منفعة فهو ربا۔“یعنی قرض کی بنیاد پر جونفع حاصل کیا جائے وہ سودہے۔( کنزالعمال،حدیث 15516،   جلد6،صفحہ238، بیروت)

   در مختار میں ہے: ”کل قرض جر  نفعاً حرام“ یعنی نفع کا سبب بننے والا قرض حرام ہے۔(در مختار،جلد7،صفحہ413،دار الفکر،بیروت)

   علامہ ابن عابدین شامی رحمۃا للہ علیہ  رد المحتار میں اس عبارت کے تحت لکھتے ہیں: ” اذا کان مشروطاً“یعنی مشروط نفع حرام ہے ۔(رد المحتار،جلد7،صفحہ413،دار الفکر،بیروت)

   سیدی اعلی حضرت امام اہل سنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے قرض کی بنیاد پر نفع حاصل کرنے کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے ارشاد فرمایا: ” کسی طرح جائزنہیں۔“  (  فتاوی رضویہ،جلد25،صفحہ217،رضا فاؤنڈیشن ،لاہور)

   صدر الشریعہ،بدر الطریقہ، مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمہ اللہ تعالی   قرض دینے والے سے متعلق  فرماتے ہیں:”یوہیں کسی قسم کے نفع کی شرط کرے ناجائز  ہے۔“(بہار شریعت،جلد2،صفحہ759،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم