مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Hab-0444
تاریخ اجراء:21ربیع الثانی1446ھ/25اکتوبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے كے بارے میں کہ ایک کمیٹی کرکٹ ٹورنامنٹ کرواتی ہے۔یہ کمیٹی ٹورنامنٹ کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اس میں شرکت کرنے والی تمام ٹیموں سے ایک مخصوص رقم انٹری فیس کے نام پر لیتی ہے،اسی رقم سے WinnerاورRunner-Upٹیموں کو انعام ملتا ہے،جبکہ بقیہ ٹیموں کو کچھ نہیں ملتا،پوچھنا یہ تھا کہ مذکورہ ٹورنامنٹ کروانا، جائز ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
بیان کردہ طریقے کے مطابق کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاداور ٹیموں کا اس میں شریک ہونا ناجائز و گناہ ہے،اس لیے کہ ٹورنامنٹ کھیلنے کے لیے ٹیمیں انٹری فیس کے نام پر جو رقم دیتی ہیں،اس کی شرعی حیثیت جوئے کی ہے،کیونکہ ٹورنامنٹ میں شریک ہر ٹیم کے بارے میں یہ امکان ہے کہ جیتنے یا رَنر اَپ ہونے کی صورت میں وہ دوسروں کا مال جیت جائے گی اور ہارنے کی صورت میں اپنے مال سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گی،اور یہی معنی جوئے میں پایا جاتا ہے،لہٰذا مذکورہ ٹورنامنٹ میں شرکت جوا کھیلنے کے مترادف ہے اور جوا کھیلنا شیطانی کام اورحرام و گناہ ہے۔کمیٹی کا ٹورنامنٹ کروانا جوئے کے کھیل پر مدد کرنا ہےاور گناہ کے کام پر مدد کرنا ناجائز و گناہ ہے۔
جوئے کی مذمت کے متعلق ارشادخداوندی ہے:﴿یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِؕ-قُلْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ٘-وَ اِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا ﴾ترجمہ کنز العرفان:’’آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں ۔تم فرمادو: ان دونوں میں کبیرہ گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ دنیوی منافع بھی ہیں اور ان کا گناہ ان کے نفع سے زیادہ بڑا ہے۔‘‘(پارہ02،سورۃ البقرۃ،آیت219)
ایک دوسرے مقام میں ارشاد فرمایا:﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ترجمہ کنز العرفان:’’اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور قسمت معلوم کرنے کے تیر ناپاک شیطانی کام ہی ہیں،تو ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔“(پارہ07،سورۃ المائدہ،آیت90)
سنن ابو داؤد میں حضرت ابن بریدہ رضی اللہ عنہاپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوة و السلام نے فرمایا:”من لعب بالنرد شير فكانما غمس يده فی لحم خنزیر و دمه“جس نے نردشیر(آرد شیر بادشاہ کا ایجاد کردہ جوا) کھیلا، تو گویا اس نے اپنا ہاتھ خنزیر کے گوشت اور خون میں ڈبویا۔(سنن ابو داؤد،ج07،ص296،رقم4939، دار الرسالة العالميہ)
مذکورہ حدیث کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”فارس کے بادشاہوں میں ایک بادشاہ آرد شیر ابن تابک گزرا ہے،اس نے یہ جوا ایجاد کیا،’’نرد‘‘بمعنی ہار جیت کی بازی اور’’اردشیر‘‘آرد شیر سے لیا گیا۔ سور کے گوشت و خون میں ہاتھ ساننا اسے نجس بھی کرتا ہے اور گھناؤنا عمل بھی ہے، اس لیےاس سے تشبیہ دی گئی۔ ملحضا۔‘‘(مرآۃ المناجیح،ج06،ص163،قادری پبلشرز، لاھور)
جوئے کے معنی کے متعلق رد المحتار میں ہے:”القمار من القمر الذی يزداد تارة وينقص أخرى، وسمى القمار قمارا لان كل واحد من المقامرين ممن يجوز ان يذهب ماله الى صاحبه و يجوز ان يستفيد مال صاحبه و هو حرام بالنص“ قمار قمر سے بنا ہے جو کبھی بڑھتا ہے اور کبھی گھٹتا ہے، اور قمار (یعنی جوئے) کو قمار اس لیےکہتے ہیں کہ جو اکھیلنے والوں میں سے ہر ایک میں اس بات کا امکان موجود ہے کہ اس کا مال اس کے مقابل شخص کے پاس چلا جائے یا وہ اپنے مقابل شخص کے مال سے فائدہ حاصل کرے اور یہ نص سے حرام ہے۔(رد المحتار، ج09،ص665،مطبوعہ کوئٹہ)
مجلس افتاء کی پیش کردہ کتاب”جوئے کی رائج صورتیں اور ان کے احکام“میں ہے:”کرکٹ، فٹ بال، والی بال وغیرہ مختلف کھیلوں کے ٹورنامنٹ منعقد کیے جاتے ہیں اور فائنل جیتنے والی ٹیم کے لیے انعام مقرر ہوتا ہے یا فائنل جیتنے والی ٹیم کے لیے بڑا انعام اور فائنل میں پہنچ کر ہار جانے والی دوسری ٹیم کے لیے چھوٹا انعام مقرر کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے ٹورنامنٹس اکثر نجی سطح پر مختلف گاؤں یا ایک ، دو شہروں کی ٹیمیں مل کر منعقد کرتی ہیں۔ ان ٹورنامنٹس میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے فیس کے نام پر مخصوص رقم ہر کھلاڑی سے لی جاتی ہے اور جمع کر کے دیگر چھوٹے موٹے اخراجات کے ساتھ آخر میں اسی رقم کے ذریعے انعام دیا جاتا ہے۔ یہ صورت بھی جوا کی ہے، کیونکہ یہاں بھی ہر کھلاڑی کے متعلق جیتنے کی صورت میں دوسرے کا مال ملنے اور ہارنے کی صورت میں اپنا مال دوسرے کے پاس چلے جانے کا امکان ہے، لہذا یہ بھی جوا ہے۔“(جوئے کی رائج صورتیں اور ان کے احکام،ص38،مجلس افتاء دعوت اسلامی)
گناہ کے کام پر مدد کرنا گناہ ہے،چنانچہ ارشادخداوندی ہے:﴿وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ﴾اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔(پارہ06،سورۃ المائدۃ،آیت 02)
اس آیت مبارکہ کے تحت احکام القرآن للجصاص میں ہے:”نھی عن معاونۃ غیرنا علیٰ معاصی اللہ تعالی“اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں پر کسی کی مدد کرنے سے منع کیا گیا ہے۔(احکام القرآن للجصاص، ج03، ص296، دار احياء التراث العربی،بیروت)
محیط برہانی میں ہے:”الاعانۃ علی المعاصی و الفجور و الحث علیھا من جملۃ الکبائر“ گناہوں اور فسق و فجور کے کاموں پر مدد کرنا اور اس پر ابھارنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔(المحیط البرھانی،ج08،ص312،دار الكتب العلميہ،بيروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کنڈا لگا کر بجلی استعمال کرنے کاحکم
غیر محرم لے پالک سے پردے کا حکم
جوان استاد کا بالغات کو پڑھانےکا حکم؟
شوہر کے انتقال کے بعد سسر سے پردہ لازم ہے یانہیں؟
کیا دلہن کو پاؤں میں انگوٹھی پہنانا جائز ہے؟
مرد کا جوٹھا پانی پینے کا حکم
محرم کے مہینے میں شادی کرنا کیسا؟
موبائل ریپئرنگ کے کام کی وجہ سے ناخن بڑھانا کیسا؟