Chori Ki Raqam Se Khane Ki Cheez Khareed Kar Bismillah Parh Kar Khana Kaisa?

 

چوری کی رقم سے کھانے کی چیز خرید کر بسم اللہ پڑھ کر کھانا کیسا؟

مجیب:مولانا سید مسعود علی عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1813

تاریخ اجراء:20محرم الحرام1446ھ/27جولائی2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ایک لڑکی نے اپنے باپ اور بھائیوں کی رقم چوری سے نکال لی اور اس کے ذریعے کھانے پینے کی چیزیں منگاتی اور بسم اللہ پڑھ کر کھاتی پیتی۔سوال یہ ہے کہ کیا اس نے ایسا کرکے  کفر کیا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں اس پر لاز م ہے کہ بلا اجازتِ شرعی جس قدر بھی والدین یا  بھائیوں کا  مال لیاہے، اس تمام  کا حساب لگا کر ان کو واپس کرے یا ان سے معاف کروائے  اور گناہ سے توبہ بھی کرے ۔ البتہ اس مال سے جو  چیزیں خرید کر  کھائی ہیں ، ان پر بسم اللہ پڑھنے  سے کفر و ارتداد کا حکم نہیں ۔

   فتاویٰ رضویہ میں ہے : ”پھر جن صورتوں میں وہ کھانا ان دونوں مذہب پر حرام ہے یعنی دو صورت پیشیں، ان میں اگر بسم اللہ کہہ کر کھایا برا کیا، مگر کافر ہر گز نہ کہا جائے گا، اس کی حرمت ضروریاتِ دین سے ہونا درکنار اجماعی بھی نہیں۔ فان من العلماء من قال یحل ابدال مالایتعین مطلقا، لعدم تعلق العقد بعینہ بل بالذمۃ، فلایسوی الخبث وھو القیاس، وعلیہ یبتنی علی مافی فتاوی العلامۃ الطوری عن المحیط، اشتری بالدراہم المغصوبۃ طعاماحل التناول۔علمائے کرام میں سے بعض نے فرمایا کہ غیر متعین طورپر بدلنا حلال ہے کیونکہ عقد حرام متعین پر نہ ہوا بلکہ عقد کا تعلق ذمہ داری سے ہے لہٰذا خبث دوسرے مال میں سرایت نہ کرے گا یہی قیاس ہے۔ اور اسی پر علامہ طوری کے فتوٰی کی بنا ہے، محیط سے منقول ہے کہ غصب کردہ دراہم کے عوض طعام خریدا ،تو کھانا حلال ہے۔ (ت) “(فتاوی رضویہ ، جلد19، صفحہ649،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم