Chehre Par Surme Se Til Banana Kaisa Hai ?

چہرےپر سرمے سے تِل بنانا کیسا ہے ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:24

تاریخ اجراء: 06ذوالحجۃالحرام 1442ھ/17جولائی 2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ چہرے پر سرمے کا تل بنانا کیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   چہرے پر تل بنانے کے حوالے سے عام طور چندطرح کی  صورتیں پائی جاتی  ہیں :

1.              بعض عورتیں فیشن کے طور پر چہرے کے کسی حصے کو سوئی وغیرہ سے گدواکر  اس میں سرمہ  وغیرہ بھرکر مصنوعی   تِل بنواتی ہیں ،ایسا کرنا، ناجائز وگناہ ہےاور حدیث پاک میں ایسا کرنے  والیوں پر لعنت کی گئی ۔

2.              چہرے کو گودے بغیر  خوبصورتی کےلیے  سرمے سے  تل کا  نشان بنایا جاتاہے،ایساکرنا، جائزہے،کیونکہ یہ زینت کی چیز ہےاور عورتوں کو  شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے زینت کرنے کی اجازت ہے،بلکہ اچھی نیت کے ساتھ، مثلا شوہر کے لیے زینت اختیار کرنے کے طورپر  ہو ، تو کارِ ثواب ہے۔

3.              اور ایک صورت یہ ہےکہ بچوں کو نظر  ِبد سے  بچانے کےلیے سرمے سے تل بنا یاجاتا ہے،یہ بھی جائز ہے ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ایک  خوبصورت بچے کو دیکھا تو اس کی ٹھوڑی پر سیاہ نقطہ لگانے کا حکم کا ارشاد فرمایا   ۔

   جسم گودنے اور گدوانے والیوں کے متعلق حدیث پاک میں ہے:لعن اللہ الواشمات و المستوشمات والمتنمّصات والمتفلّجات للحسن المغیّرات خلق  اللہ ترجمہ:اللہ پاک  لعنت کرےگودنے والیوں اور گُدوانے والیوں اور منہ کے بال نوچنے والیوں اور خوبصورتی  کے لیے دانتوں میں کھڑکیاں بنانے والیوں پر ،(کیونکہ یہ سب) اللہ تعالیٰ  کی بنائی ہوئی چیز کو بگاڑنے والیا ں ہیں ۔(بخاری شریف ، کتاب اللباس باب المتفلجات للحسن، جلد2 صفحہ878،مطبوعہ کراچی )

   مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سالِ وفات:1391ھ/1971ء)لکھتےہیں: گود نے ، گدوانے سے مراد سوئی کے ذریعہ نیل یا سرمہ جسم میں لگاکرنقش و نگار کرانا یا اپنا نام لکھوانا یہ دونوں کام ممنوع ہیں،طریقۂ مشرکین ہیں اور طریقۂ  کفاروفجار(ہے)۔(مراٰۃ المناجیح، جلد4، صفحہ231، مطبوعہ  ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاهور)

   عورت کا اپنے شوہر کے لیے  زینت اختیار کرنا کارِ ثواب ہونے کے متعلق سیّدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ(سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:”عورت کا اپنے شوہر کے لئے گَہنا (زیور)پہننا، بناؤ سنگارکرنا ،باعثِ اجر ِعظیم اور اس کے حق میں نمازِ نفل سے افضل ہے۔‘‘(فتاویٰ رضویہ، جلد22، صفحہ126،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاهور)

   نظر ِبد سے حفاظت کےلیے بچوں کے چہرے پر تِل وغیرہ بنانے کےمتعلق  شرح  السنۃ للبغوی  اور مرقاۃ المفاتیح   وغیرہ میں ہے:روي أن عثمان رأى صبيا مليحا، فقال: دسموا نونته كيلا تصيبه العين ترجمہ:مروی ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ایک خوبصورت بچے کو دیکھا ، تو فرمایاکہ اس کی ٹھوڑی میں سیاہ نقطہ لگا دو،تاکہ اِسے نظر نہ لگے۔(شرح السنۃ للبغوی،کتاب الطب و الرقی ،باب مارخص فیہ من الرقی، جلد 12، صفحہ 166،مطبوعہ المکتب الاسلامی،بيروت )

   شیخ الحدیث علامہ عبد المصطفی ٰاعظمی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:’’نظر سے بچنے کے لئے ماتھے یا ٹھوڑی وغیرہ میں کاجل وغیرہ سے دھبہ لگا دینا یا کھیتوں میں کسی لکڑی میں کپڑا لپیٹ کر گاڑ دینا تاکہ دیکھنے والے کی نظر پہلے اس پر پڑےاور بچوں اور کھیتی کو کسی کی نظر نہ لگے  ،ایسا کرنا منع نہیں ہے ،  کیونکہ نظر کا لگنا حدیثوں سے ثابت ہے اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ،حدیث شریف میں ہے کہ جب اپنی یا کسی مسلمان کی کوئی چیز دیکھے اور وہ اچھی لگے اور پسند آجائے تو فوراً یہ دعا پڑھے: تبارک اللہ احسن الخالقین اللھم بارک فیہ۔(ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی اللبس،جلد  9،صفحہ 601)

   یا اردو میں یہ کہہ دے کہ اﷲ برکت دے اس طرح کہنے سے نظر نہیں لگے گی ۔‘‘(جنتی زیور،صفحہ 410، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم