Chehre Par Colour (Face Painting) Karna Kasia Hai ?

چہرے پر  کلر (Face Painting) کرنا کیسا ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Fmd-0516

تاریخ اجراء:10ذو القعدۃ الحرام1438ھ/03 اگست2017ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس بارے میں کہ آج کل مختلف مواقع پر چہرے پر مختلف قسم کے پینٹ کلر کیے جاتے ہیں ،عموماً ملکی یا پارٹی پرچم کا پینٹ کیا جاتا ہے ، جو کبھی  پورے چہرے پر بنایا جاتا ہے ، کبھی صرف گال پر مختصر سا جھنڈا پینٹ کیا جاتا ہے۔ اس بارے میں حکم شرعی کیا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   چہرے پرپینٹ کے ذریعے پرچم یا کوئی اورڈیزائن بنانے کی جائز وناجائز دونوں صورتیں ہوسکتی ہیں ۔

   جن صورتوں میں چہرےپر  پینٹ کی وجہ سے چہرہ بِگڑاہوا،بدنُما دکھائی دے، ان صورتوں میں پینٹ کرنا، کرواناشرعی اعتبار سے مثلہ یعنی چہرہ بگاڑنے کے حکم میں ہے اور یہ حرام ہے، جبکہ جن صورتوں میں پینٹ کی وجہ سے  چہرہ خوبصورت لگے یا کم از کم بِگڑا ہوا نہ لگے،تو یہ ناجائز و گناہ نہیں ۔

   بعض لوگ نہریا دریا کے کنارے  چکنی مٹی  کا اپنے منہ  پرلیپ کرکے شکل وصورت بد نما کرکے ہنسی مذاق اورتفریح کرتے ہیں ، یہ بھی مثلہ ہی کی صورت ہے ۔اسی بناء پر فقہائے کرام نےپانی نہ ہونے کی صورت میں گیلی پاک کیچڑ سے بھی تیمم کرنےکی ممانعت فرمائی ہے کہ کیچڑ منہ پر لگنے سے منہ آلودہ اوربدنما ، بگڑا ہوا دکھائی دے گا  ، جو مثلہ  کی ہی صورت ہے ۔

   فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ”ولو كان المسافر فی طين وردغة لا يجد ماء ولا صعيدا وليس فی ثوبه وسرجه غبار يلطخ ثوبه أو بعض جسده بالطين فاذا جف تيمم به ولا ينبغی أن يتيمم ما لم يخف ذهاب الوقت لأن فيه تلطخ الوجه من غير ضرورة فيصير بمعنى المثلة “یعنی کوئی مسافرشخص کسی  کیچڑ اور دلدل جیسی جگہ میں ہو ، جہاں نہ پانی دستیاب ہے نہ خشک مٹّی، نہ ہی کپڑے یازِین پرغبار ہے ، تواپنے کپڑے یاجسم کے کسی حصّے پرکیچڑ لگالے، جب خشک ہوجائے ، تو اس سے تیمم کرے اور جب تک وقت نکلنے کااندیشہ نہ ہو ، اس سے تیمم نہیں کرنا چاہیے ،  کیونکہ اس میں بلاضرورت ،چہرہ آلودہ ہوکرمثلہ(صورت بگاڑنے) کے معنی میں ہوجاتاہے۔(فتاویٰ عالمگیری،جلد1 ،صفحہ27،مطبوعہ کوئٹہ)

   اعلیٰ حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوٰی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں :’’منہ کیچڑ سے ساننا صورت بگاڑنا ہے اور صورت بگاڑنا مُثلہ اور مُثلہ حرام ہے ، یہاں تک کہ جہاد میں حربی کافروں کوبھی مُثلہ کرنا صحیح حدیث میں منع فرمایا،جن کے قتل کاحکم فرمایا اُن کے بھی مثلہ کی اجازت نہیں دی۔ افسوس اُن مسلمانوں پر کہ باہم کھیل میں ایک دوسرے کے منہ پر کیچڑ تھوپتے ہیں یاہنسی سے کسی کے سوتے میں اس کے منہ پر سیاہی لگاتے ہیں ، یہ سب حرام ہے اور اس سے پرہیز فرض۔‘‘(فتاوٰی رضویہ ،جلد 3،صفحہ667،رضافاؤنڈیشن ،لاھور)

   البتہ پینٹ کرنا ، جائز ہو یا نا جائز،بہرصورت چہرے پرپینٹ کا جِرم وتہہ جم جاتی ہے اوروضو کرنے یا غسلِ فرض ادا کرنے  میں پینٹ کا یہ جِرم وتہہ  چہرے کی کھال پر پانی بہنے سے مانع ہے ، جس کے سبب وضو وغسلِ فرض ادا نہیں ہوتا اور اس حالت میں نماز کی ادائیگی بھی نہیں ہوتی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم