Biwi Ka Apne Name Ke Sath Shohar Ka Name Lagana Kaisa?‎

بیوی کا اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لگانا کیسا ؟

مجیب:مولانا عرفان احمد صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:sar:4809

تاریخ اجراء:04جمادی الاول1437ھ/13فروری2016ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بیوی کااپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لکھنا جائز ہے یا نہیں ؟جبکہ زید کہتا ہے کہ جائز نہیں کہ حدیث مبارکمن ادعى الى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام میں اس سے منع کیا گیا ہے ، لہذا بتائیے کہ اس کے بارے میں حکم شرعی کیاہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     بیوی کااپنےنام کے ساتھ شوہر کانام لگانا،جائز ہے کہ بیوی کااپنےنام کے ساتھ شوہر کا نام لگانااپنانسب بتانے کے لئے نہیں ہوتا بلکہ رشتہ زوجیت کے اظہار کے لئے ہو تاہے اور بیوی کا اپنےنام کے ساتھ شوہر کا نام لگاناتعریف و پہچان کے باب میں سے ہےاور تعریف و پہچان کبھی ولاء سے ہوتی ہے ۔ جیسے عکرمہ مولی ابن عباس اورکبھی حرفت (پیشہ)سے ہوتی ہے ۔ جیسے غزالی؛کبھی لقب سے جیسے اعرج اور اعمش اور کبھی کنیت سے ہوتی ہے ۔ جیسے ابومحمد ،حتیٰ کہ کبھی تعریف کے لئے لفظ ابن (جو مستعمل ہی نسب بیان کرنے کے لئے ہے )کے ساتھ ماں کی طرف نسبت کر دی جاتی ہے ۔ جیسا کہ اسماعیل بن ابرہیم جوکہ ابن علیہ کے نام سے پہچانے جاتے  ہیں ۔ علامہ شرف الدین نووی علیہ رحمۃ اللہ القوی  اسماعيل بن ابراہیم المعروف بابن علیہ کے بارے میں فرماتے ہیں :ابن علية هى أمه وكان يكره أن يُنسب اليها ويجوز نسبته اليها للتعريفابن علیۃ حالانکہ  علیۃ ان کی والد ہ ہیں اور والدہ کی طرف منسوب کرنا مکروہ ہے ، البتہ تعریف و پہچان کے لئے والدہ کی طرف نسبت کرنا ، جائزہے۔(تهذيب الأسماء واللغات،ج1،ص120، دار الكتب العلمية، بيروت)

     اورکبھی تعریف و پہچان زوجیت کے ساتھ بھی ہوتی ہے ۔ جیسا قرآ ن مجید میں اللہ تعالیٰ نےتعریف و پہچان کے لئے  حضرت لوط وحضرت نوح علیہما السلام کی زوجہ اور فرعون کی زوجہ کی نسبت ان کے شوہروں کے ناموں کی طرف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوا امْرَاَتَ نُوۡحٍ وَّ امْرَاَتَ لُوۡطٍ ترجمہ:اللہ کافروں کی مثال دیتا ہے :نوح کی عورت اور لوط کی عورت اورمزید ارشاد فرماتا ہے :وَ ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ ترجمہ:اور  اللہ مسلمانوں کی مثال بیان فرماتا ہے :فرعون کی بی بی ۔ (پارہ 28،سورہ التحریم،آیت 10، 11)

     اور زید کا اس حدیث کی بناء پر اس کو ناجائز کہنا درست نہیں کہ حدیث مبارک میں ممانعت فقط اس صورت میں ہے کہ جب دوسرے کو باپ سمجھتے ہوئے اس کی طرف اپنی نسبت کی جائے ۔ جیسا کہ علامہ شرف الدین نووی اس حدیث کی شرح میں اس بات کی وضاحت کرتے  ہوئے ارشادفرماتے ہیں : أَیِ انْتَسَبَ إِلَيْهِ وَاتَّخَذَهُ أَبًا یعنی اسکی طرف منسوب ہو اور اسے باپ قرار دے ۔(شرح النووی على مسلم ،ج2،ص50،دار احياء التراث العربي ،بيروت)

     اوریہ بات ظاہر ہے کہ  ہمارے عرف میں شوہر کے نام کا اضافہ بطورنسب یا باپ بنانے کےلئے نہیں ہوتا بلکہ رشتہ زوجیت کے اظہار کے لئے ہوتا ہے ، لہذااس میں شرعاًکوئی حرج نہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم