Bin Bulaye Dawat e walima Me Jane Ka Sharai Hukum

بِن بلائے دعوتِ ولیمہ میں جانے کا شرعی حکم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Sar-7858

تاریخ اجراء: 04ذوالقعدۃ1442ھ/04جون2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلےکے بارے میں کہ دعوت ولیمہ میں بغیر بلائے جانا کیسا ہے اور اگر کوئی چلا جائے تو صاحب خانہ کا اس کو  کھانا کھانے سے روکنے کا اختیار ہے یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     مخصوص افراد کے لئے کی گئی کھانے کی دعوت میں صاحب خانہ کے بغیر بلائے ،کسی شخص کا جانا ،ناجائزو گناہ ہےاور اگر کوئی بغیر بلائے دعوت میں آجائے ،تو صاحب خانہ کو اختیار ہے  چاہے تو اسے کھانا کھانے سے روک دے یا اجازت د یدے۔

     البتہ بن بلائے دعوت میں آنے والا اگر اجازت مانگے، تو صاحب خانہ کا اسے اجازت دے دینا حسن اخلاق میں سے ہے اور مستحب عمل ہے ، جبکہ  دعوت میں شریک ہونے  کی وجہ سے حاضرین کواس سے  کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے اور اگر اس کی شرکت کی وجہ سے حاضرین کو تکلیف پہنچتی ہے مثلاً  اس شخص کی شہرت لوگوں میں اچھی نہیں اور اس کےحاضرین کے پاس بیٹھنے میں حاضرین پر تہمت کا اندیشہ ہےیا یہ آنے والا حاضرین کی کوئی ایسی بات باہر بتاسکتا ہے کہ جسے یہ ناپسند جانتے ہوں(وغیرہ وجوہات کہ جس  کی وجہ سےحاضرین کو کوئی خرابی پہنچ سکتی ہو) تو مناسب یہ ہے کہ اسے دعوت میں شرکت کی اجازت نہ دی جائےاور اچھے انداز سے اسے دعوت میں شرکت  کرنے سے روک دیا جائے اور اگر روکتے ہوئے اسے کھانے میں کوئی چیز دے کر اسے واپس کیا جائے ،تو یہ اچھا عمل ہے۔

     بن بلائے دعوت میں شرکت کرنے والے کے بارے حدیث مبارک میں ہے : " عن عبد الله بن عمر: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم : "من دعي فلم يجب فقد عصى الله ورسوله، ومن دخل على غير دعوة دخل سارقا وخرج مغيرا"ترجمہ: عبداﷲبن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم نے فرمایا: جس کو دعوت دی گئی اور اس نے قبول نہ کی اس نے اﷲو رسول (عزوجل وصلَّی اللہ تعالی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی نافرمانی کی اور جو بغیر بلائے گیا وہ چور ہو کر گھسا اورلٹیرابن کر نکلا۔(سنن أبي داود،باب ماجاء فی اجابۃ الدعوۃ،ج5،ص569،دارالرسالۃ  العالمیہ)

     صاحب خانہ کو بن بلائے دعوت میں آنے والے کو  روکنے اور اجازت دینے کا اختیار ہے اس بارے میں حدیث مبارک میں ہے کہ :"عن أبي مسعود الأنصاري قال: «كان من الأنصار رجل يقال له أبو شعيب، وكان له غلام لحام، فقال: اصنع لي طعاما أدعو رسول الله صلى الله عليه وسلم خامس خمسة فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم خامس خمسة فتبعهم رجل، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إنك دعوتنا خامس خمسة، وهذا رجل قد تبعنا، فإن شئت أذنت له، وإن شئت تركته. قال: بل أذنت له."ترجمہ: حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی، کہ ایک انصاری جن کی کنیت ابوشعیب تھی، انہوں نے اپنے کھانا پکانے والے غلام سے کہا، کہ اتنا کھانا پکاؤ جو پانچ شخصوں کے لیے کفایت کرے،میں نبی کریم  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم کی مع چار اصحاب کے دعوت کروں گا۔تو انہوں نے  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھ چار اصحاب کو بلایا،تو(ان کے ہاں دعوت کو جاتے ہوئے ) ایک شخص حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ ہولیے، نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم نے فرمایا: ابوشعیب ہمارے ساتھ یہ شخص چلا آیا، اگر تم چاہو اسے اجازت دو اور چاہو تو نہ اجازت دو، انہوں نے عرض کی، میں نے ان کو اجازت دی۔ (صحیح بخاری،باب الرجل يتكلف الطعام لإخوانه،ج7،ص78،مطبعة الكبرى،مصر)

     اس حدیث مبارک کی شرح میں  علامہ ابو زكريا محي الدين يحيى بن شرف النووی رحمۃ اللہ علیہ  ارشاد فرماتے ہیں کہ : " ففيه أن المدعو إذا تبعه رجل بغير استدعاء ينبغى له أن لايأذن له وينهاه وإذا بلغ باب دار صاحب الطعام أعلمه به ليأذن له أو يمنعه وأن صاحب الطعام يستحب له أن يأذن له إن لم يترتب على حضوره مفسدة بأن يؤذي الحاضرين أو يشيع عنهم ما يكرهونه أو يكون جلوسه معهم مزريا بهم لشهرته بالفسق ونحو ذلك فإن خيف من حضوره شيء من هذا لم يأذن له وينبغي أن يتلطف في رده ولو أعطاه شيئا من الطعام إن كان يليق به ليكون ردا جميلا كان حسنا"ترجمہ: اس حدیث مبارک میں یہ ہے کہ دعوت میں بلائے گئے شخص کے ساتھ جب کوئی دوسرا شخص  بھی آجائے ،تو دعوت میں بلائے گئے فرد کے لئے مناسب یہ ہے کہ اسے اجازت نہ دے اور اسے منع کردے اور جب دعوت کرنے والے کے دروازے پر پہنچے تو صاحب خانہ کو اس کے بارے میں بتادے  تاکہ وہ اجازت دینا چاہے تو اجازت دےد ے  یامنع کرنا چاہے ، تو منع کردے،اور اس صورت میں صاحب خانہ کا اسے اجازت دے دینا مستحب ہے جبکہ اس شخص کے اس  دعوت میں شریک ہونے سے حاضرین کو کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی  مثلاً  یہ شخص حاضرین کو تکلیف دے گا یا حاضرین کی وہ بات عام کرے گا جسے یہ ناپسند جانتے ہوں  یا اس شخص کے فسق کےساتھ شہرت  یا اس طرح کی کسی دوسری خرابی کی وجہ سے ،اس کا حاضرین کے پاس بیٹھنا حاضرین کو عیب زدہ کرتا ہو،البتہ اگر اس کے شریک ہونے  میں مذکورہ باتوں میں کسی بات کا خوف ہو تو اس اچانک آنے والے کو اجازت نہ دے اور اسے دعوت میں شرکت کرنے سے روکنے  میں نرمی سے کام لے اور اگر  کھانے میں   ،اس شخص کے لائق کوئی چیز دے کر واپس کرتا ہے تاکہ اسے اچھے طریقے سے واپس کیا جائے ،تویہ اچھا عمل ہے۔(شرح النووي على مسلم،ج13،ص208، دار إحياء التراث العربي،بيروت)

     یونہی علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث مبارک کی شرح میں ارشاد فرماتے ہیں : "وفيه أنه ينبغي لمن استؤذن في مثل ذلك أن يأذن للطارئ كما فعل أبو شعيب وذلك من مكارم الأخلاق"ترجمہ:اس حدیث مبارک میں یہ ہے کہ اس طرح جب کسی سے اجازت طلب کی جائے تو اچانک آنے والے کو اجازت دے دی جائے جیساکہ ابو شعیب رضی اللہ عنہ نے کیا اور ایسا کرنا اچھے اخلاق میں سے ہے۔(فتح الباري لابن حجر،ج9،ص561،دارالمعرفہ ،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم