Bimar Shakhs Ke Sar Par Kala Bakra Ya Siyah Murgha War Kar Sadqa Karna Kaisa?

بیمار شخص کے سر پر کالا بکرا یا سیاہ مرغا وار کر صدقہ کرنا کیسا؟

مجیب:مفتی ابومحمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-12676

تاریخ اجراء:23جمادی الاخری1444ھ/16جنوری2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص بیمار ہے تو اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ سیاہ رنگ کا بکرا یا مرغا لے کر مریض کے سر پر سات بار وار کر صدقہ کردیں۔اس طریقہ کے بارے شریعت مبارکہ کے کیا احکام ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    احادیثِ مبارکہ کے مفہوم کے مطابق صدقہ بلاؤں کو ٹالتا ہے اور بالخصوص جان کا صدقہ تو اس معاملے میں بہت ہی مؤثر و نفع بخش ہے نیز  بکری وغیرہ صدقہ کرنے کا ثبوت تو احادیثِ مبارکہ سے بھی ملتا ہے، لہذا ممکنہ صورت میں بیمار شخص کی طرف سے  حسبِ استطاعت کوئی جانور صدقہ کردینا چاہیے۔  البتہ صدقہ کرنے میں فقط  کالے رنگ کا بکرا ہونے  یا کالے رنگ ہی کی مرغی ہونے یا صدقے کی چیز  سر پر سے گھما کر دینے کی کوئی فضیلت ہماری نگاہ سے نہیں گزری ۔ یہ عمل ممکن ہے کسی ٹوٹکے کے طور پر کیا جاتا ہو اور ٹوٹکے کے طور پر کیا جانے والا ہر عمل ناجائز نہیں ہوتا جیسا کہ سر پر مرچی گھما کر نظر اتارنے کا ایک عمل عاملین کی طرف سے بتایا جاتا ہے ،یہ ایک ٹوٹکا ہے اس پر عمل کرنا، جائز ہے ۔لھذا سر پر گھمانے والی بات کو ناجائز کہنے کی بھی کوئی وجہ نہیں ہے البتہ اس کی فضلیت یا خصوصیت بھی ثابت نہیں ہے۔

    صدقہ بلاؤں کو ٹالتا ہے۔ جیسا کہ شُعَبُ الايمان کی حدیثِ مبارک میں ہے:”عن أنس بن مالك قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : باكروا بالصدقة فإن البلاء لا يتخطى الصدقة“یعنی حضرتِ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ صبح سویرے صَدَقہ دِیا کرو کیونکہ  بَلا صَدَقہ سے آگے قدم نہیں بڑھاتی۔ (شُعَبُ الايمان، باب فی الزکاۃ،التحريض علی صدقة التطوع، ج 03، ص 214، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

    مشکاۃ المصابیح کی حدیثِ مبارک میں ہے:”عن علي رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : "بادروا بالصدقة فإن البلاء لا يتخطاها" “یعنی حضرتِ سیدنا علی  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ صدقہ میں جلدی کرو کہ بلاء  اس سے آگے نہیں بڑھتی ۔(مشكاة المصابيح،  کتاب  الزکاۃ،باب الانفاق۔۔۔الخ،  ج 01، ص 591، المكتب الإسلامي، بیروت)

    مذکورہ بالا حدیثِ مبارک کے تحت مفتی احمد یار خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:” اس جملہ کے دو معنے ہوسکتے ہیں:ایک یہ کہ جب کسی قسم کی  جانی یا مالی بلا آئے تو بہت جلد صدقے دینا شروع کردو ، باقی تمام تدبیریں علاج وغیرہ بعد میں کرو تاکہ ان صدقات کی برکت سے اگلی تدبیریں بھی کامیاب ہوں۔بعض لوگ آفت آتے ہی میلاد شریف،گیارھویں شریف،ختم خواجگان،ختم غوثیہ،ختم بخاری،ختم آیت کریمہ کراتے ہیں،ان کا ماخذ یہ حدیث ہے کہ ان کاموں میں اﷲ کا ذکر،اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت شریف وغیرہ بھی ہے اور صدقہ بھی ،ذکراﷲ بھی دافع بلا ہے اور صدقہ بھی،بعض لوگ بیماریوں میں اردو تیل یا بیمار کا جانور پر ہاتھ لگواکر اسے ذبح کرکے خیرات دیتے ہیں،ان سب کا ماخذ یہ ہی حدیث ہے کہ یہاں صدقہ مطلق ہے۔دوسرے یہ کہ ہر حال میں ہمیشہ صدقے کرتے رہوکیونکہ ہر وقت ہی آفت آنے کا خطرہ ہے۔ تم آفت سے پہلے صدقہ دے دو،بعض لوگ ہمیشہ میلاد شریف،گیارھویں شریف،ہر ماہ ختم خواجگان وغیرہ کراتے رہتے ہیں تاکہ آفات دور ہیں،ان کا ماخذ بھی یہ حدیث ہے۔۔۔۔صدقہ انسان اور آفات کے درمیان مضبوط حجاب ہے۔(مرقات)یہ عمل بہت مجرب ہے اگر کبھی صدقہ سے آفت نہ جائے تو یہ رب تعالٰی کی آزمائش ہے اس پر صبرکرے۔ “ (مرآۃ المناجیح، ج 03، ص 94، نعیمی کتب خانہ، ملتقطاً)

    بکری صدقہ کرنے سے متعلق مسنداحمد کی حدیثِ پاک میں ہے: ”عن أم سلمة أن امرأة أهدت لها رجل شاة تصدق  عليها بها  فأمرها النبي صلى الله عليه وسلم أن تقبلها “ترجمہ:”حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہاسے مروی ہے کہ ایک عورت نے ان کواس بکری کی ٹانگ ہدیہ کی ، جوبکری اس عورت پرصدقہ کی گئی تھی ،تونبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اسے قبول کرنے کا فرمایا۔“(مسنداحمد،ج44،ص242،موسسۃ الرسالۃ)

    مریض کی شفا یابی کے لیے جانور ذبح کرنے کے متعلق فتاوٰی شامی میں ہے:  الذبح عند وضع الجدار أو عروض مرض أو شفاء منه لا شك في حله لأن القصد منه التصدق  ۔ حموی و مثله النذر بقربان معلقا بسلامته من بحر مثلا فيلزمه التصدق به على الفقراء فقط كما في فتاوى الشلبي یعنی دیوار کی بنیاد رکھنے کے وقت یامرض کے لاحق ہونے  یااس سے شفاپانے کے وقت جوذبح کیاجائے ، تواس جانورکے حلال ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ، کیونکہ اس سے مقصود صدقہ کرناہوتاہے۔ یہ مسئلہ حموی میں ہے  اوراسی کی مثل ہے :جانورقربان کرنے کی منت ماننا، جواس کے مثلاًسمندرسے سلامت رہنے پرمعلق ہو، تواس پرلازم ہوجائے گا کہ اسے صرف فقراء پرصدقہ کرے ۔ جیساکہ فتاوی شلبی میں ہے ۔(ردالمحتارمع الدرالمختار،کتاب الذبائح،ج09،ص516،مطبوعہ کوئٹہ)

    فتاوٰی رضویہ میں ہے : ” شیرینی یاکھانا فقراء کوکھلائیں ، تو صدقہ ہے اور اقارب کو تو صلہ رحم اور احباب کو تو ضیافت اور یہ تینوں باتیں موجب نزول رحمت ودفع بلاومصیبت ہیں ۔۔۔یہی حال بکری ذبح کرکے کھلانے کاہے ، مگرتجربہ سے ثابت ہواہے کہ جان کا صدقہ دینازیادہ نفع رکھتاہے۔ (فتاوٰی رضویہ،ج24،ص186-185،رضافاونڈیشن،لاھور، ملتقطاً)

    مفتی خلیل خان القادری البرکاتی   علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ ” کوئی شخص اپنے مال اور اپنی جان کا صدقہ کرنا چاہے تو یہ صدقہ کس کو دے سکتا ہے کون اس کا مستحق ہے؟ اور جس کا صدقہ دینا ہو تو کیا اس کا نام لینا ضروری ہے یا کہ نہیں؟ “ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”صورتِ مسئولہ میں اپنی جان اور اپنے مال کا صدقہ نفل ہے۔ اور نفل صدقہ فقیر، مسکین، بیوہ، یتیم یا کسی بھی غریب مسلمان کو دے سکتے ہیں۔۔۔۔صدقہ دینے میں دینے والے کا نام لینا ضروری نہیں،  صرف نیت کافی ہے۔(فتاوٰی خلیلیہ،ج 01، ص 495-494، ضیاءالقرا ن، ملتقطاً)

   مفتی محمد حبیب اللہ نعیمی اشرفی علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:” صدقاتِ نافلہ میں مطلقاً اجازت ہے کہ گندم، ماش، روغن تلخ یا کوئی اور اناج یا لباس و طعام اور جو چیز چاہے صدقہ کرے، خواہ نقدم دام خیرات کرےاور جتنی مقدار میں چاہے خیرات و صدقہ کرے، کسی چیز کی تعیین شرعاً ضروری نہیں۔ نہ وزن و مقدار کی پابندی لازم ہے۔ لیکن اولیٰ یہ ہے کہ جو چیز زیادہ محبوب و مرغوب ہو وہ صدقہ کرے۔۔۔۔ البتہ معمولات مشائخ میں جو صدقات بطورِ عمل بتائے گئے ہیں ان میں جو چیز جتنی مقدار میں بتائی گئی ہو وہی دے دوسری چیز نہ دے مقدار کی پابندی کرے۔“(حبیب الفتاویٰ ، ج 01، ص 667، شبیر برادرز لاہور، ملتقطاً)

    کالے رنگ کے بکرے کو صدقہ کرنے کے حوالے سے مکتبۃ المدینہ کے ایک مطبوعہ رسالے میں کچھ یوں مذکور ہے: ”صَدَقے کے لیے نہ تو ایسا کالا بکرا دینے کی ضرورت ہے جس مىں اىک بھى بال سفىد نہ ہو اور نہ ہی  کالى مرغى کو  سر پر سے گھماکر دینے کی حاجت بلکہ جو بھی اللہ کی راہ میں دیا جائے وہ صَدَقہ ہے۔ (ملفوظات امیر اہلسنت، قسط  نمبر21، ص 26، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم