مجیب: مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی
فتوی نمبر: Web-1499
تاریخ اجراء: 20شعبان المعظم1445 ھ/02مارچ2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا ایسا شرعی حکم ہے
کہ بارش ، آندھی /طوفان،
مطلع ابر آلود یا پھر اس کے
علاوہ روٹین سے ہٹ کر موسم میں تبدیلی ہو تو اس دوران یہ
ذکر (سبحان اللہ، الحمد للہ،اللہ اکبر) نہیں کئے جاسکتے یا پھر ان میں
کوئی ایک ذکر ہوسکتا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ہر غیر نارمل موسم میں
ایسا نہیں ہے بلکہ مراسیل ابی داؤد میں حضرت سیدنا عبید اللہ بن
ابو جعفر رحمۃ اللہ علیہ سے مرسلاً روایت ہے کہ اللہ پاک کے
آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’إذا سمعتم الرعد فسبحوا ولا تکبروا‘‘ یعنی جب تم بادل کی گرج سنو
تو اللہ پاک کی تسبیح کرو، تکبیر نہ کہو۔(مراسیل ابی داؤد ،باب ما جاء فی المطر، جلد1،صفحہ356،الحدیث:531،مؤسسۃ
الرسالۃ،بیروت)
خیال رہے کہ بادل کی گرج کے وقت
تکبیر کہنا، ناجائز نہیں ہے،ہاں تکبیر سے بہتر اس موقع پر
تسبیح و تحمید ہے یعنی سبحان اللہ
اور
الحمد للہ کہنا۔اور
تسبیح تب ہے جب گرج بہت شدید نہ ہو کہ جب شدت سے بادل گرج رہے ہوتے تو
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا مانگتے:’’اَللّٰہُمَّ لَا
تَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ وَلَا تُہْلِکْنَا بِعَذَابِکَ وَعَافِنَا قَبْلَ
ذٰلِکَ‘‘
چنانچہ حدیث پاک کے الفاظ ’’ولا تکبروا‘‘ کے
تحت علامہ عبد الرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’أی
الأولیٰ إیثار التسبیح والحمد ھنا لأنہ الأنسب
لراجی المطر وحصول الغیث وفی خبر ما یفید أن التسبیح انما یطلب حال عدم
اشتدادہ فإن المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کان إذا اشتد
الرعد قال: اَللّٰھُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ وَلَا تُھْلِکْنَا
بِعَذَابِکَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذٰلِکَ ‘‘ یعنی بادل
کی گرج سننے کے وقت تسبیح اور
حمد کرنے کو اختیار کرنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ یہ بارش کی
امید رکھنے والے کے اور بارش کے حصول کے زیادہ مناسب ہے اور
حدیث پاک میں ایسی چیز ہے جو اس بات کا فائدہ دیتی ہے کہ
تسبیح کا مطالبہ گرج کی شدت نہ ہونے کے وقت ہے کہ جب شدت سے بادل گرجتے تو نبی کریم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم یہ کہتے: اَللّٰھُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ
وَلَا تُھْلِکْنَا بِعَذَابِکَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذٰلِکَ‘‘(فیض القدیر شرح
جامع صغیر،ج1،ص487،الحدیث:694،الناشر:دار الکتب
العلمیۃ،بیروت)
تفسیر صراط الجنان میں پارہ 13
سورۃ الرعد کی آیت نمبر
13 وَ یُسَبِّحُ
الرَّعْدُ بِحَمْدِهٖ وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ مِنْ خِیْفَتِهٖۚ-وَ
یُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَیُصِیْبُ بِهَا مَنْ یَّشَآءُ وَ
هُمْ یُجَادِلُوْنَ فِی اللّٰهِۚ-وَ هُوَ شَدِیْدُ
الْمِحَالِؕ(۱۳) ترجمۂ کنزالایمان : ’’اور گر ج
اسے سراہتی ہوئی اس کی پاکی بولتی ہے اور فرشتے اس
کے ڈر سے اور کڑک بھیجتا ہے تو اسے ڈالتا ہے جس پر چاہے اور وہ اللہ
میں جھگڑتے ہوتے ہیں اور اس کی پکڑ سخت ہے۔‘‘ کے تحت ہے:’’یاد رہے کہ گرج اور کڑک
کی آواز اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک
وعید ہے لہٰذا جب اس کی آواز سنیں تو اپنی
دنیوی گفتگو روک کر اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول
ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے اس کی پناہ
مانگیں ، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ
عنہما جب گرج کی آواز سنتے تو آپ گفتگو چھوڑ کر یہ
آیت پڑھتے: ”وَ یُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهٖ وَ
الْمَلٰٓىٕكَةُ مِنْ خِیْفَتِهٖ“پھر
فرماتے: بے شک یہ زمین والوں کے لئے شدید وعید
ہے۔(سنن
الکبری للبیہقی،الحدیث 6471)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ
عنہما فرماتے ہیں، جب نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وآلہ وسلم گرج اور کڑک کی آواز سنتے، تو یہ دعا
مانگتے: ”اَللّٰہُمَّ
لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ وَلَا تُہْلِکْنَا بِعَذَابِکَ وَعَافِنَا قَبْلَ
ذٰلِکَ‘‘یعنی
اے اللہ! ہمیں اپنے غضب سے نہ مارنا اور اپنے عذاب سے ہلاک نہ کرنا اور
ہمیں اپنا عذاب نازل ہونے سے پہلے عافیت عطا فرما۔ (ترمذی،الحدیث
3461)
حضرت
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے
روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”جب تم گرج کی آواز
سنو تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا شروع کر دو کیونکہ یہ ذکر
کرنے والے کو نہیں پہنچتی۔“(معجم الکبیر،الحدیث11371)(تفسیر صراط الجنان،جلد5،صفحہ93-94،
مکتبۃ المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کنڈا لگا کر بجلی استعمال کرنے کاحکم
غیر محرم لے پالک سے پردے کا حکم
جوان استاد کا بالغات کو پڑھانےکا حکم؟
شوہر کے انتقال کے بعد سسر سے پردہ لازم ہے یانہیں؟
کیا دلہن کو پاؤں میں انگوٹھی پہنانا جائز ہے؟
مرد کا جوٹھا پانی پینے کا حکم
محرم کے مہینے میں شادی کرنا کیسا؟
موبائل ریپئرنگ کے کام کی وجہ سے ناخن بڑھانا کیسا؟