Bandar Palne Ka Hukum

 

بندر پالنے کا حکم

مجیب:مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3070

تاریخ اجراء: 07ربیع الاول1446 ھ/12ستمبر2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  کیا گھر بندر کا بچہ یا بچی رکھ سکتے ہیں؟ اس میں کوئی ممانعت  تو نہیں ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بندر کا بچہ ہو یا بچی  اسے پالنا مکروہ ہے   کیونکہ اس کا شمار فاسق اور موذی جانوروں (جو اکثر اوقات اذیت  اور ضرر دینے میں پہل کرتے ہیں) میں ہوتاہے جیسے بندر چیزیں چھین لیتے ہیں، قیمتی چیزوں کو اٹھا کر  پھینک دیتے ہیں ،بلاوجہ کپڑے وغیرہ پھاڑ دیتےہیں وغیرہ ۔اور  مداری و تماشا دکھانے والے لوگ اسے  تماشا گیری کےلئے جو  سدھالیتے ہیں،تو   یہ بھی جائزنہیں ہے ۔

   امام اہلسنت الشاہ امام احمدرضاخان  علیہ  رحمۃ الرحمن سے  سوال ہوا کہ (ترجمہ) بندر کو اپنے گھرمیں پالنا مکروہ اور ناپسندیدہ کام ہے یانہیں؟

   تو آپ علیہ الرحمۃ نے جواباً فرمایا:”بلے زیراکہ او ازفسقہ است  واز وے جز ایذا نیاید  واگربارے مسخرخواہد  چنانکہ قلندران می کنند ایں خود حرامست کما فی الدرالمختار، وھو تعالٰی اعلم“ترجمہ :ہاں بیشک(اس کاپالنامکروہ ہے) اس لئے کہ وہ فاسق جانوروں میں شمار ہوتاہے۔ پس اس سے سوائے ایذارسانی اورکچھ نہیں ہوتا، اگرکبھی تابع کیاجائے جیساکہ قلندرلوگ (مداری)کیاکرتے ہیں تویہ بھی حرام ہے، جیسا کہ درمختارمیں مذکورہے،وھوتعالٰی اعلم ۔“ (فتاوی رضویہ ،ج 24،ص 661،رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم