Bakra Sadqa Karne Ka Hukum?

بکرا صدقہ کرنے کا حکم

مجیب:مولانا عرفان صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی ھاشم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:lar:8289

تاریخ اجراء:11جمادی الاولی1440ھ/18جنوری2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زیدجوکہ حنفی کہلاتاہے،اس کاکہناہے کہ (جانور)بکرےذبح کرناصرف قربانی،عقیقے،حج وعمرہ کے دم ،حج قران وتمتع کے شکرانے کے مواقع پرہی عبادت ہے ،ہاں گوشت کھاناہے ، توٹھیک ہے ورنہ ان کے علاوہ عبادت نہیں ہے اوریہ جوصدقے کے بکرے پورے سال لوگ کرتے ہیں ،یہ بدعت ہے ، جسے ختم کرناضروری ہےاورایساکرنے والےگنہگارہیں ،ظالم ہیں ،اسلام میں اس کاکوئی تصورنہیں ہے  ۔صدقے کافلسفہ غریب کی حاجت پوری کرناہے ،وہ حاجت پیسوں سےاوراس کے گھرکے راشن سےپوری ہوتی ہے،بکرے سے پوری نہیں ہوتی۔

     شرعی رہنمائی فرمائیں کہ کیازیدکادعویٰ درست ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     زیدکایہ قول ”بکرے ذبح کرنا صرف قربانی،عقیقے،حج وعمرہ کے دم ،حج قران وتمتع کے شکرانے کے مواقع پرہی عبادت ہے ،ہاں گوشت کھاناہے توٹھیک ہے ورنہ ان کے علاوہ عبادت نہیں ہے ، لہذا صدقے کے لیے بکرے ذبح کرنا گناہ اورظلم ہے“ سراسرغلط ہے ۔

     تفصیل اس میں یہ ہے کہ :

     (الف)نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے مبارک زمانہ میں صحابہ کرام علیہم الرضوان زندہ  بکری بھی صدقہ کیاکرتے تھے اورذبح کرکے بھی اورآپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے بھی بکری کے گوشت کے صدقہ کے مقبول ہونے کی صراحت فرمائی ہے۔ بخاری،مسلم، سنن نسائی،صحیح ابن حبان اورمسنداحمدوغیرہ میں روایت ہے :(واللفظ لمسلم)” عن ابن عباس قال: تصدق على مولاة لميمونة بشاة فماتت فمر بها رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: هلا أخذتم اهابها فدبغتموه فانتفعتم به ؟ فقالوا: انها ميتة فقال: انما حرم أكلهاترجمہ:حضرت سیدناابن عباس رضی اللہ تعالی عنہماسے مروی ہے ، فرمایا:حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہاکی لونڈی پرایک بکری صدقہ کی گئی ، تووہ مرگئی،پس رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کااس پرسے گزر ہوا ، تو فرمایا:تم نے اس کی کھال لے کراسے دباغت کرکے اس سے نفع کیوں نہ اٹھایا؟توانہوں نے عرض کی :یہ مردارہے ۔پس فرمایا:اس کاصرف کھاناحرام ہے ۔(الصحیح لمسلم،کتاب الحیض،باب طھارۃ جلودالمیتۃ بالدباغ،داراحیاء التراث العربی،بیروت)

     سنن ترمذی میں ہے : عن عائشة أنهم ذبحوا شاة  فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ما بقي منها؟ قالت: ما بقي منها إلا كتفها قال:بقي كلها غير كتفها هذا حديث صحيح ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہاسے مروی ہے کہ انہوں نے ایک بکری ذبح کی ، تونبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا:اس میں سے کیاباقی رہا؟انہوں نے عرض کی :اس میں سے کچھ باقی نہ رہا ، مگراس کاکندھاباقی رہا،فرمایا:اس کے کندھے کے سواسب کچھ باقی رہ گیا۔یہ حدیث صحیح ہے۔ (سنن ترمذی،ابواب صفۃ القیامۃ الخ،ج04،ص644،مصطفی البابی الحلبی،مصر)

     مسنداحمدمیں ہے : ”عن أم سلمة أن امرأة أهدت لها رجل شاة تصدق  عليها بها  فأمرها النبي صلى الله عليه وسلم أن تقبلها ترجمہ:حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہاسے مروی ہے کہ ایک عورت نے ان کواس بکری کی ٹانگ ہدیہ کی ، جوبکری اس عورت پرصدقہ کی گئی تھی ،تونبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اسے قبول کرنے کا فرمایا۔ (مسنداحمد،ج44،ص242،موسسۃ الرسالۃ)

     المعجم الاوسط  اورالمعجم الکبیرمیں ہے : عن سعد بن عبادة قال: جئت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: توفيت أمي ولم توص ولم تتصدق فهل يقبل إن تصدقت عنها؟ قال: «نعم» قال: فهل ينفعها ذلك؟ قال: «نعم ولو بكراع شاة محترق» ترجمہ:حضرت سعدبن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ، فرمایا:میں نے رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضرہوکرعرض کی : میری والدہ کاانتقال ہوگیاہے اورانہوں نے کوئی وصیت نہیں کی اورنہ صدقہ کیا۔ اگرمیں ان کی طرف سے صدقہ کروں ، توکیاقبول ہوجائے گا؟آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا:ہاں ۔حضرت سعدرضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی:توکیایہ ان کے لیے نفع مندہوگا؟آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا:ہاں ،اگرچہ صدقے میں بکری کاجلاہوا پایا ہی ہو۔(المعجم الاوسط،ج07،ص277،مطبوعہ دارالحرمین،القاھرۃ)

     اس روایت میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے کم سے کم بات ارشادفرمائی کہ اگرچہ بکری کاجلاہواکھرہی صدقہ کرو ، تواس کافائدہ میت کوہوگا،مطلب یہ کہ چاہے پوری بکری صدقہ کردواورچاہے اس کاکھراوروہ بھی جلاہوا ، دونوں صورتوں میں مقبول ہوگااورمیت کونفع دے گا۔

     (ب)نیز صدقہ کے لیے بکراذبح کرنے سے مقصودفقراء کوگوشت کھلاناہوتاہے ، تووہ تمام احادیث جن میں کھاناکھلانے ،کسی مسلمان کی حاجت پوری کرنے کے فضائل واردہیں ، وہ سب اس کام کےثواب ہونے کے لیے واضح دلیل ہیں ۔ایک روایت مرفوع بیان کی جاتی ہے ،نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا: من اطعم اخاہ حتی یشبعہ وسقاہ من الماء حتی یرویہ باعدہﷲ من النار سبع خنادق مابین کل خندقین مسیرۃ خمس مائۃ عامترجمہ:جو اپنے مسلمان بھائی کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے، پیاس بھر پانی پلائے اللہ تعالی اسے دوزخ سے سات کھائیاں دور کردے گا۔ہرکھائی سے دوسری تک پانچ سو برس کی راہ ہے ۔(المعجم الکبیرللطبرانی،ج13،ص54،القاھرۃ)

اورحضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالی عنہ کے نزدیک تورقم صدقہ کرنے کے مقابلے میں کھاناکھلانازیادہ محبوب تھا۔ الترغیب والترہیب میں ہے : ” لَان اطعم اخالی فی ﷲ لقمۃ احب الی من ان اتصدق علی مسکین بدرھم ۔۔۔۔ رواه أبو الشيخ أيضا فيه ولعله موقوف كالذي قبله “ ترجمہ:بے شک میرا اپنے کسی دینی بھائی کو اللہ عز و جل کے لئےایک نوالہ کھلانا مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ مسکین کو ایک درہم دوں ۔۔۔۔۔اسے بھی ابوشیخ نے شوارب میں روایت کیاہے اورشایدیہ بھی ماقبل روایت کی طرح موقوف ہے ۔(الترغیب والترھیب للمنذری،ج02،ص38،دارالکتب العلمیۃ،بیروت)

     (ج)غمزالعیون میں صراحت ہے کہ صدقہ کرنے کےلیے ذبح کرنامستحب ہے ۔ چنانچہ الاشباہ والنظائرمیں ہے : ”والذبح قد يكون لأكل فيكون مباحا أو مندوبا “  ترجمہ:اورجانورکاذبح کرناکبھی کھانے کے لیے ہوتاہے اوراس صورت میں یہ یاتومباح ہوگایامستحب۔

     اس کے تحت غمزعیون البصائرمیں ہے : ” قوله: أو مندوباكالذبح بنية التصدق على الفقراء “ ترجمہ:مصنف نے جوفرمایاکہ کھانے کے لیے جوجانورذبح کیاجاتاہے وہ کبھی مستحب ہوتاہے ،اس کی مثال فقراء  پرصدقہ کرنے کی نیت سے ذبح کرناہے۔(غمزعیون البصائرفی شرح الاشباہ والنظائر،الفن الاول،القاعدۃ الثانیۃ:الاموربمقاصدھا،ج1،ص 120 ،دارالکتب العلمیۃ،بیروت)

     (د)اسی طرح فقہاء کرام نے فرمایاہے کہ مرض کے طاری ہونے یااس سے شفاپانے کے وقت جوجانورذبح کیاجاتاہے ، اس سے مقصودبھی گوشت کاصدقہ کرناہوتاہےاوراوپرگزراکہ گوشت صدقہ کرنے کے لیے جانورذبح کرنامستحب ہے ، توثابت ہواکہ مرض وغیرہ مصائب کے طاری ہونے یاان سے شفاپانے کے وقت  بھی جانورذبح کرنامستحب ہے ۔چنانچہ ردالمحتارمیں ہے : ” الذبح عند وضع الجدار أو عروض مرض أو شفاء منه لا شك في حله لأن القصد منه التصدق “ ترجمہ: دیواررکھنے کے وقت یامرض کے پیش آنے یااس سے شفاپانے کے وقت جوذبح کیاجائے ، تواس جانورکے حلال ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ، کیونکہ اس سے مقصود صدقہ کرناہوتاہے ۔ (ردالمحتارمع الدرالمختار،کتاب الذبائح،ج06،ص309،دارالفکر،بیروت)

     (ہ)نیزفقہاء کرام نے فرمایاہے کہ جب ذبح کرنے میں مصلحت ہو ، توجانورذبح کرنا ، جائزہے اوردوسروں کوکھاناکھلانا،یقیناً مصلحت ہے ، لہذااس کے لیے ذبح کرنابھی جائزہے ۔چنانچہ مجمع الانھرمیں ہے : ”والذبح للمصلحة جائز “ ترجمہ:اورمصلحت کے لیے ذبح کرنا ، جائزہے ۔(مجمع الانھر،باب الغنائم وقسمتھا،ج01،ص641،داراحیاء التراث العربی،بیروت)

     فتاوی رضویہ میں ہے :خود امام الطائفہ در تقریر ذبیحہ سراید ” اگر شخصے بُزے راخانہ پرور کند تاگوشت اوخوب شود اُورا ذبح کردہ و  پختہ فاتحہ حضرت غوثِ اعظم رضی ﷲ تعالی عنہ خواندہ بخو راند خللے نیست ۔“ ترجمہ : خود امام الطائفہ نےتقریر ذبیحہ میں یہ نغمہ سرائی کی ہے : اگر کوئی شخص کسی بکری کو گھر میں پالے تاکہ اس کا گوشت عمدہ ہو، ا س کو ذبح کرکے اور پکاکر حضرت غوث اعظم رضی اﷲ تعالی عنہ کی فاتحہ پڑھ کر کھلائے ، تو کوئی خلل نہیں ہے ۔“(فتاوی رضویہ،ج09،ص577،578،رضافاونڈیشن،لاھور)

     (و)فقہاء کرام نے فرمایاہے کہ اگرمنت مانی کہ” میں شفا یاب ہوگیایاسمندرسے صحیح سلامت بچ گیا ، تومجھ پربکری ذبح کرنالازم ہے یامیں بکری ذبح کروں گا، تووہ منت لازم ہوجائے گی “اورمنت کے بارے میں قاعدہ ہے کہ منت اسی صورت میں درست ہوگی ، جبکہ ایسی چیزکی منت مانی جائے ، جوعبادت مقصودہ ہو،اس سے پتاچلاکہ صدقہ کے لیے بکراذبح کرناعبادت مقصودہ ہے ، لہٰذافقراء پرصدقہ کرنے کے لیے بکراذبح کرنابھی عبادت ہے ۔ردالمحتار میں ہے : في الخانية قال: إن برئت من مرضي هذا ذبحت شاة فبرئ لا يلزمه شيء إلا أن يقول فلله علي أن أذبح شاة  وهي عبارة متن الدرر وعللها في شرحه بقوله لأن اللزوم لا يكون إلا بالنذر والدال عليه الثاني لا الأول  فأفاد أن عدم الصحة لكون الصيغة المذكورة لا تدل على النذر أي لأن قوله ذبحت شاة وعد لا نذر، ويؤيده ما في البزازية لو قال إن سلم ولدي أصوم ما عشت فهذا وعد لكن في البزازية أيضا إن عوفيت صمت كذا لم يجب ما لم يقل لله علي وفي الاستحسان يجب ولو قال: إن فعلت كذا فأنا أحج ففعل يجب عليه الحج فعلم أن تعليل الدرر مبني على القياس و الاستحسان خلافه “ ترجمہ:خانیہ میں ہے ،کسی نے کہا:”اگرمیں اپنے اس مرض سے شفاپاگیا، توایک بکری ذبح کروں گا۔ “ پھروہ شفایاب ہوگیا، تو اس پرکچھ لازم نہیں ہوگا، مگریہ کہ وہ کہے:” مرض سے شفاپاگیا، تواللہ تعالی کے لیے مجھ پرلازم ہے کہ میں بکری ذبح کروں “اوریہ دررکے متن کی عبارت ہے اوراس کی شرح میں اس کی علت یہ بیان کی ہے کہ لزوم صرف نذرکی وجہ سے ہوتاہے اورنذرپردوسراجملہ دلالت کرتاہے پہلانہیں ۔پس انہوں نے اس بات کاافادہ کیاکہ پہلی صورت میں منت کاصحیح نہ ہونااس وجہ سے ہے کہ مذکورہ صیغہ منت پردلالت نہیں کرتایعنی اس لیے کہ اس کایہ قول کہ : ” بکری ذبح کروں گا ۔ “وعدہ ہے ،منت نہیں ہے اوراس کی تائیداس مسئلے سے ہوتی ہے ، جوبزازیہ میں ہے کہ اگرکسی نے کہاکہ ” اگرمیرابیٹاسلامت رہا، تومیں زندگی بھرروزے رکھوں گا ۔ “ تویہ وعدہ ہے ، لیکن بزازیہ میں یہ بھی ہے کہ اگرکسی نے کہاکہ ” اگرمجھے عافیت ملی ، تومیں اتنے روزے رکھوں گا۔ “ تواس پرروزے رکھناواجب نہیں  ہوں گے،جب تک وہ یہ نہ کہے کہ ” اللہ تعالی کے لیے مجھ پرلازم ہے ۔ “ اوراستحساناًواجب ہوں گےاوراگرکہے:” اگرمیں نے ایساکیا، تومیں حج کروں گا“ پھراس نے ایساکیا، تواس پرحج واجب ہوگا۔پس اس سے پتاچلاکہ درر کی تعلیل قیاس پرمبنی ہے اوراستحسان اس کے برخلاف ہے ۔                                         (ردالمحتارمع الدرالمختار،کتاب الایمان،ج03،ص740،دارالفکر،بیروت)

     ردالمحتارمیں ہے : الذبح عند وضع الجدار أو عروض مرض أو شفاء منه لا شك في حله لأن القصد منه التصدق  ۔ حموی و مثله النذر بقربان معلقا بسلامته من بحر مثلا فيلزمه التصدق به على الفقراء فقط كما في فتاوى الشلبي ترجمہ: دیواررکھنے کے وقت یامرض کے پیش آنے یااس سے شفاپانے کے وقت جوذبح کیاجائے ، تواس جانورکے حلال ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ، کیونکہ اس سے مقصود صدقہ کرناہوتاہے۔ یہ مسئلہ حموی میں ہے  اوراسی کی مثل ہے :جانورقربان کرنے کی منت ماننا، جواس کے مثلاًسمندرسے سلامت رہنے پرمعلق ہو، تواس پرلازم ہوجائے گا کہ اسے صرف فقراء پرصدقہ کرے ۔ جیساکہ فتاوی شلبی میں ہے ۔(ردالمحتارمع الدرالمختار،کتاب الذبائح،ج06،ص309،دارالفکر،بیروت)

     اورمنت کے درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ  جس چیزکی منت مانی جائے ، وہ عبادت مقصودہ ہو،اس کے حوالے سے منحۃ الخالق میں ہے : قال في البدائع: ومن شروطه أن يكون قربة مقصودة فلا يصح النذر بعيادة المريض وتشييع الجنازة والوضوء والاغتسال ودخول المسجد ومس المصحف والأذان وبناء الرباطات والمساجد وغير ذلك وإن كانت قربا لأنها غير مقصودة  فهذا صريح في أن الشرط كون المنذور نفسه عبادة مقصودة لا ما كان من جنسه ويدل عليه أنهم صححوا النذر بالوقف لأن من جنسه واجبا وهو وقف مسجد للمسلمين وقد علمت أن بناء المسجد غير مقصود ترجمہ:بدائع میں فرمایا:اورمنت کی شرائط میں سے یہ ہے کہ جس چیزکی منت مانی جائے ، وہ قربت مقصودہ ہو ، پس مریض کی عیادت اورجنازہ کے ساتھ جانے اوروضووغسل کرنے اورمسجدمیں داخل ہونے اورمصحف شریف کوچھونے اوراذان اورسرائے خانے اورمساجدبنانے وغیرہ کاموں کی منت درست نہیں ۔ یہ کام اگرچہ قربت یعنی عبادت ہیں ، لیکن  قربت مقصودہ نہیں ، تویہ اس بات میں صریح ہے کہ منت کے درست ہونے کی شرط یہ ہے کہ جس چیزکی منت مانی جائے ، وہ کام خودعبادت مقصودہ ہو، جس کی جنس سے یہ ہے،اس کاعبادت مقصودہ ہوناشرط نہیں اوراس پردلیل یہ مسئلہ  ہے کہ فقہاء نے وقف کی منت کودرست قراردیاہے ، کیونکہ اس کی جنس سے واجب ہے اوروہ ہے مسلمانوں کے لیے مسجدکووقف کرنااورآپ جان چکے ہیں کہ مسجدبناناعبادت غیرمقصودہ ہے۔ (منحۃ الخالق مع البحرالرائق،کتاب الایمان،ج04،ص321،دارالکتاب الاسلامی،بیروت)

     امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ الرحمۃ نے بھی وضاحت فرمائی ہے کہ گوشت صدقہ کرنے کے لیے ذبح کرناثواب کاکام ہے ۔ چنانچہ کسی نے ایصال ثواب کے لیے ذبح کرنے کوشرک کہااوراس پردلیل دیتے ہوئے کہا : ”اس ذبح کے بدلے گوشت خرید کر تصدق کرنا ان کے نزدیک کافی نہیں ہوتا، تو معلوم ہوا کہ ایصال ثواب مقصود نہیں ، بلکہ خاص ذبح للغیر وشرک صریح مراد ہے، اگر چہ وہ صاف کہہ رہے ہیں کہ ہمارا مطلب صرف ایصال ثواب ہی ہے“

     اس کاجواب دیتے ہوئے امام اہلسنت علیہ الرحمۃ نے فرمایا:”اقول: اس سے صرف اتنا ثابت ہوا کہ خاص ذبح مراد ہے، ذبح للغیر کہاں سے نکلا؟ کیا ثواب ذبح کوئی چیز نہیں یا گوشت دینے میں وہ بھی حاصل ہوجاتاہے ؟ (فتاوی رضویہ،ج20،ص276،277،رضافاونڈیشن،لاھور)

     (ز)صدقے میں جانورذبح کرنے کی ترجیحات:صدقہ کے لیے بکراذبح کرنے  میں دوثواب ہیں :ایک ذبح کا(جیساکہ اوپرمذکورہوا)اوردوسراگوشت صدقہ کرنے کا، جبکہ رقم دینے یادوسراکوئی راشن دینے میں فقط ایک ہی ثواب ہے یعنی صدقہ کرنے کااوریہ بات عقلاً و نقلاً ثابت ہے کہ جس میں صرف صدقہ کرنے کاثواب ہو، اس کے مقابلے میں اس نیکی کی زیادہ اہمیت ہے ، جس میں صدقہ کابھی ثواب ہواوردوسری نیکی کابھی ۔صحیح ابن خزیمہ میں ایک باب باندھاگیاہے،جس کاعنوان ہے : باب استحباب إيثار المرء بصدقته قرابته دون الأباعد لانتظام الصدقة وصلة معا بتلك العطية ترجمہ:باب اس چیزکے بارے میں کہ غیروں کے بجائے قریبی رشتہ داروں کوصدقہ دینے میں ترجیح دینامستحب ہے کہ اس میں ایک ہی عطیہ میں صدقہ اورصلہ دونیکیاں ہیں ۔(صحیح ابن خزیمہ،ج04،ص77،المکتب الاسلامی،بیروت)

     اورفقہاء کرام نے قربانی کے ایام میں جانورکی قیمت صدقہ کرنے کے مقابلے میں قربانی کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا:(والتضحية فيها) أي في أيام النحر (أفضل من التصدق بثمن الأضحية)۔۔۔لأن فيها جمعا بين التقرب بإراقة الدم والتصدق ۔۔۔۔ ولا شك أن الجمع بين القربتين أفضلترجمہ:ایام نحرمیں قربانی کرناجانورکی قیمت کوصدقہ کرنے کے مقابلے میں افضل ہے اس لیے کہ اس میں خون بہانے اورصدقہ کرنے کی نیکیوں کوجمع کرناہے اورشک نہیں کہ دونیکیوں کوجمع کرناافضل ہے ۔ (العنایۃ شرح الهدایۃ،کتاب الاضحیۃ،ج09،ص513،دارالفکر،بیروت)

     نیزیہ بیان کیاگیاہے کہ تجربہ سے ثابت ہے کہ  جان کاصدقہ دینابلائیں دورکرنے میں زیادہ موثرہے ، تواس وجہ سے صدقے میں بکرادینے کوترجیح حاصل ہوئی۔چنانچہ فتاوی رضویہ میں ہے : ” شیرینی یاکھانا فقراء کوکھلائیں ، تو صدقہ ہے اور اقارب کو تو صلہ رحم اور احباب کو تو ضیافت اور یہ تینوں باتیں موجب نزول رحمت ودفع بلاومصیبت ہیں ۔۔۔یہی حال بکری ذبح کرکے کھلانے کاہے ، مگرتجربہ سے ثابت ہواہے کہ جان کا صدقہ دینازیادہ نفع رکھتاہے۔                                                                                              (فتاوی رضویہ،ج24،ص185،186،رضافاونڈیشن،لاھور)

     (ح)جب زیدخودیہ کہہ رہاہے کہ گوشت کھانے کے لیے بکراذبح کرنادرست وجائزہے ، تواب وہ یہ کیسے کہہ سکتاہے کہ صدقے کے لیےبکرا ذبح کرنادرست نہیں ؟ کیونکہ صدقے کے لیے بکرااسی لیے ذبح کیاجاتاہے کہ فقراء کھائیں ،جیساکہ اوپرمذکورہوا۔

     (ط)زیدجب اس بات کوتسلیم کرتاہے کہ صدقہ کافلسفہ غریب کی حاجت پوری کرناہے اورگھرکاراشن دینابھی حاجت پوری کرناہے ، تویہ کیوں نہیں تسلیم کرتا کہ بکرادینابھی حاجت پوری کرناہے ؟  کیونکہ بکرابھی توگھرکے راشن کاایک حصہ ہے ۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم