مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Fsd-8164
تاریخ اجراء:07جمادی الاخری1444ھ/31دسمبر2022ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین
اس مسئلےکےبارے میں کہ والدین یا کوئی رشتہ دار بچے کو
کوئی کھانے کی چیز
،مثلاً:چاکلیٹ ، بسکٹ وغیرہ
یا کوئی اسٹیشنری میں استعمال کی چیز قلم، پینسل وغیرہ لے کر دیں اور بچہ وہ چیز آدھی کھا کر یا
کچھ دیر تک استعمال کر کے چھوڑ دے
اور اس کے خراب یا ضائع ہونے کا اندیشہ ہو ، تو اس کے متعلق
کیا حکم ِ شرعی ہے ؟کیا والدین وہ چیزخود استعمال
کر سکتے ہیں یا کسی دوسرے
بچے کو دے سکتے ہیں؟سائل :محمد ندیم (فیصل
آباد)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نفسِ مسئلہ کا جواب معلوم کرنے سے پہلے ضروری تمہیدی گفتگو
سمجھ لیجیے۔
نابالغ کو چیز دیتے وقت اِباحت یا ملکیت کی
کوئی صراحت نہ کی جائے ، تو ایسی صورت میں اس کا
دار و مدار عُرف پر ہو گا اور اُصول یہ ہے کہ جب کسی چیز پر
عُرف قائم ہو جائے اورعُرف و عادت کے خلاف صراحت موجود نہ ہو ،توعُرف فیصلہ
کر نے والا ہوتا ہے اور ہمارے یہاں (پاکستان)میں عُرف یہ ہے کہ والدین یا
کوئی رشتہ دار وغیرہ نابالغ بچے کو کھانے یا استعمال کی
ایسی چیز دیتے ہیں ، تو عمومی طور پر اس
میں ملکیت وغیرہ کا
تصور نہیں ہوتا، بلکہ بچوں کو یہ چیزیں مباح الاستعمال و
الانتفاع کے طور پر دی جاتی
ہیں ،یعنی بچوں کا ان
اشیا کو استعمال کرنا اور ان سے نفع اٹھانا مباح ہونے کی حیثیت سے ہوتا ہے
،یہی وجہ ہے کہ اُس چیز میں سے والدین خود
بھی لےکر چکھ لیتے ہیں ، دوسرے بچے کو دینا چاہیں ،
تو اسے بھی دے دیتے ہیں، یونہی استعمال کی
چیزوں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے ،مثلاً: ایک
بچے کی پینسل ، ریزر، وغیرہ ضرورتاً دوسرے بچے کو دے
دیتے ہیں،الغرض تملیک مقصود نہیں ہوتی ، بلکہ
یہ چیزیں بچوں کے استعمال کے لیے مباح کی
جاتی ہیں اور اِباحت کا حکم
یہ ہے کہ جو چیز مباح کی جائے وہ دینے والے کی
ملکیت پر باقی رہتی ہے،حتی کہ مباح لہ یعنی
جس کے لیے چیز مباح کی ہو،اُس کے استعمال کے وقت بھی وہ
چیز دینے والے کی ملکیت پر باقی ہوتی
ہے۔
عُرف کی وجہ سے کسی چیز پر اباحت کا اطلاق کب کیا
جائے گا ، تقریبِ فہم کے لیے
اس کی ایک فقہی نظیر ملاحظہ
کیجیے ،چنانچہ دو
بھائیوں کے باہمی لین دین کے ایک معاملے کے متعلق
کلام کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت
امامِ اہلِ سنّت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:”بالجملہ مدار عُرف پر ہے اور یہاں عُرف قاضیِ
اباحت کہ جو بھائی باہم یکجا رہتے اور اتفاق رکھتے اور خورد ونوش
وغیرہا مصارف میں غیریت نہیں برتتے، ان کی سب
آمدنی یکجا رہتی ہے اور جسے جو حاجت پڑے بے تکلف خرچ کرتا اور
دوسرا اس پر راضی ہوتا اور واپسی کا ارادہ نہیں رکھتا، نہ وہ
آپس میں یہ حساب کرتے ہیں کہ اس دفعہ تیرے خرچ میں
زائد آیا ،اتنا مجرا دے، نہ صَرف کے وقت ایک دوسرے سے کہتا ہے
،میں نے اس روپے سے اپنے حصے کا تجھے مالک کردیا،بلکہ یہی
خیال کرتے ہیں کہ باہم ہمارا ایک معاملہ ہے، جس کا مال جس کے
خرچ میں آجائے ،کچھ پروا نہیں اور یہ عین
معنی اباحت وتحلیل ہے ، توجب تک اس کاخلاف دلیل سے ثابت نہ ہوگا
، اباحت ہی قرار دیں گے۔(فتاویٰ
رضویہ، جلد16،صفحہ93،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
اب اس مسئلے کو پیش نظر رکھتے ہوئے، اگر ہمارے مسئلے میں غور کیا جائے ، تو
ایسی معمولی کھانے یا استعمال کی چیز
والدین بچوں سے بلاتکلف لے
لیتے ہیں اوردوسرے
بچوں کو بھی دے دیتے
ہیں، الغرض ہر طرح تصرف کر لیتے ہیں ،عُرف میں یہی رائج ہے اور یہ بات
اِباحت کو ثابت کرتی ہے، لہٰذا جب تک صراحت نہ پائی جائے ،
نابالغ کو دی جانے والی کھانے اور اسٹیشنری کی
چیز وں کے متعلق اباحت کا ہی حکم ہوگا۔
اس تفصیل کی روشنی میں سوال میں بیان
کی گئی صورت کا متعین جواب یہ ہے کہ جوچیز والدین نے نابالغ بچے
کو دی اور دیتے وقت مالک بنانے کی کوئی صراحت
بھی نہ کی اور بچے نے کچھ کھا
کر یا استعمال کر کے چھوڑ دی ، تو والدین اسے خود بھی استعمال کر سکتے ہیں اور
کسی اور کو بھی دے سکتے ہیں،اِسی طرح جوچیز
کسی رشتہ دار نےدی ہواور اُس میں دینے والے کی
صراحتاً یا دلالۃً اجازت
موجود ہو ، تو اس میں بھی تصرف کر سکتے ہیں،کیونکہ جو
چیز مباح کی جائے ،وہ مباح کرنے
والے کی ملکیت پر باقی رہتی ہے۔
(تنبیہ)بیان کر دہ حکم اس صورت
میں تھا ، جب صراحت نہ کی جائے ، البتہ اگر بچے کو دیتے
ہوئے تحفہ، ہبہ وغیرہ کی
صراحت کر دی جائے اور بچے کو مالک
بنانا ہی وہاں عرف و مقصود ہو، تو ایسی صورت میں بچہ اس
کا مالک ہو جائے گا، کیونکہ اُصول یہ ہےکہ:”الصریح یفوق
الدلالۃ “
یعنی صراحت دلالت پر فوقیت اور ترجیح رکھتی ہے ،
لہٰذا ایسی صورت میں حکم شرعی یہ ہوگاکہ وہ
چیز اب بچے کی ہے ، نہ تو وہ
خود کسی کو دے سکتا ہے اور نہ
ہی اس کے والدین کسی کو دے سکتے ہیں،البتہ اگر اس کے پڑے
رہنے سے خراب یا ضائع ہونے کا اندیشہ ہو،تو شریعتِ مطہرہ نابالغ کے مال کو ضائع ہونے
سے بچانے کے لیے بچے کے والد کو بیچنے یا خود خریدنے
کی اجازت دیتی ہے ،لہٰذا بیان کردہ صورت میں بچے کا والدوہ چیز
مثلی قیمت پر کسی کو
بیچ دے یا خود
خرید لے اور خریدنے کے بعد وہ مالک ہے،چاہے تو اسے استعمال کر
لے یا کسی اورکو دے دے ، پھر
اس چیز کی رقم محفوظ کرلے یا بچے کے کسی کام میں
خرچ کر دے ، مثال کے طور پربچے کی حقیقی ملکیتی
کوئی چیز چالیس روپے
کی تھی ، اب بچے نے آدھی کھا کر چھوڑ دی اور پڑے رہنے سے وہ ضائع ہو جائے گی ،
توبچے کا والد پچیس ،تیس روپے
میں(جو بھی قیمت بنتی ہو) وہ چیز خود لے لے
اور اس کی رقم محفوظ کر لے یا بچے کی کسی ضرورت میں
خرچ کر دے۔
اب بالترتیب جزئیات ملاحظہ کیجیے :
نابالغ بچے کو چیز دیتے ہوئے
ملکیت وغیرہ کی
صراحت نہ کی گئی ، تو
اس کا دار و مدار عُرف پر ہوگا اور عُرف سے ثابت ہونے والے احکام کے متعلق اُصول
بیان کرتے ہوئے شمس الاَئمہ، امام سَرَخْسِی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:483ھ/1090ء) لکھتے ہیں:”والعادة تجعل حَكما إذا لم يوجد التصريح بخلافه“ ترجمہ : اور جب عُرف و عادت کے خلاف
صراحت موجود نہ ہو ، تو اسے مختلف اقوال میں حَکَم و فَیْصل قرار
دیا جائے گا۔(شرح السیر الکبیر ، باب الامان ، جلد1، صفحہ 208، مطبوعہ دار الکتب
العلمیہ ، بیروت )
علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:” وفی’’ شرح البیری ‘‘ عن ’’ المبسوط‘‘:
الثابت بالعرف کالثابت بالنص“
ترجمہ :علامہ بیری کی شرح اشباہ میں مبسوط کے
حوالے سے ہے کہ عرف سے ثابت شدہ حکم نص ِ
شرعی سے ثابت شدہ حکم کی طرح ہے۔(شرح العقودرسم المفتی
، صفحہ75 ، مطبوعہ کراچی )
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:”والعرف قاض“ ترجمہ : اور عُرف فیصلہ کر
نے والا ہے۔(فتاویٰ رضویہ، جلد3،صفحہ49،مطبوعہ رضا
فاؤنڈیشن،لاھور)
اور ہمارے عُرف میں
والدین وغیرہ بچے کو جو چیز دیتے ہیں ، اس
میں ملکیت کا تصور نہیں ہوتا، لہٰذا اس میں اِباحت کا حکم ہو گا اور اگر بچہ اس کو چھوڑ دے ، تو
دینے والا اس میں تصرف کرسکتا ہے، کیونکہ مباح کی
گئی چیز مالک کی ملک پر باقی رہتی ہے، چنانچہ اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت احمد
رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:”ہبہ کہ تملیک بلاعوض ہے ، بخلاف اباحت کہ شَے مِلکِ
مالک ہی پر رہتی ہے ،اُس کی اجازت سے صَرف کی جاتی
ہے۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد4،صفحہ76،مطبوعہ رضا
فاؤنڈیشن،لاھور)
مزيد ایک مقام پر امامِ اہلِ سنّت رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے
ہیں:”یصرحون فی غیر ما موضع ان المباح لہ انما یتصرف
علی ملک المُبیح، لاحظ لہ من الملک اصلا‘‘
یعنی بہت سے مقامات پر علمائے کرام تصریح فرماتے ہیں :جس
شخص کے لیے کوئی چیز مباح کی جائے ، تو وہ اس کو مباح
کرنے والے کی ملکیت پر ہی استعمال کرتا ہے، اس (مباح لہ )کا
ملکیت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔“ (فتاویٰ
رضویہ، جلد20،صفحہ541،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
تنبیہ میں بیان کیے گئے حکم کے متعلق جزئیات:
اگر نابالغ کو چیز دیتے وقت ملکیت کی صراحت کر
دی ، تو عُرف کا اعتبار نہیں ہو گا،چنانچہ شمس الاَئمہ، امام سَرَخْسِی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے
ہیں:”فأما عند وجود التصريح بخلافه يسقط اعتباره“ترجمہ: بہر حال جب عرف کے خلاف صراحت پائی جائے
، تو عرف کا اعتبار نہیں ہوگا۔(شرح السیر الکبیر ، باب الامان ، جلد1،
صفحہ 208، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت )
اسی طرح عامۂ کتب فقہ میں اُصول موجود ہے : ”الصريح يفوق
الدلالة أعني العرف “ترجمہ: صراحت ، دلالت یعنی عُرف پر
فوقیت رکھتی ہے۔(ردالمحتار مع
الدرالمختار، کتاب النکاح ،باب المھر، جلد4، صفحہ281، مطبوعہ کوئٹہ)
اور جب نابالغ کو مالک بنا دیا ، تو نہ وہ خود کسی کو دے سکتا ہے
اور نہ بلا حاجت والدین اس میں سے کچھ لے سکتے، کیونکہ جس تصر ف سے نابالغ کومحض نقصان ہو ،وہ نہ تو
خود کر سکتا ہے ، نہ ہی اس کا ولی کر سکتا،چنانچہ تنویر الابصار و درمختار مع رد المحتار
میں ہے،وبین القوسین عبارۃ ردالمحتار:”و ان ضار کالطلاق و العتاق و
الصدقۃ و القرض ،لا و ان اذن بہ ولیھما(و کذا لاتصح من غیرہ
کابیہ و وصیہ و
القاضی للضرر“ترجمہ:اور
اگربچہ یا معتوہ ایسا تصرف
کریں،جس سے اُنہیں محض ضررہو ،جیسے طلاق دینا،غلام آزاد
کرنا،صدقہ کرنا یا قرض دینا،تو یہ تصرف صحیح نہیں
ہے،اگر چہ ان کا ولی اس کی اجازت دے ،اسی طرح اگریہ
تصرفات بچے کا غیرکرے، جیسے اس کا باپ ،وصی یا
قاضی،توضرر کی وجہ سے تب
بھی درست نہیں۔(الدرالمختار مع رد المحتار،کتاب المأذون ،جلد 9،صفحہ291،مطبوعہ کوئٹہ )
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:”نابالغ کے تصرفات تین قسم ہیں : ضارّمحض جس
میں خالص نقصان ہو یعنی دنیوی مَضَرَّتْ ہو ،اگرچہ
آخرت کے اعتبار سے مفید ہو ،جیسے صدقہ و قرض ،غلام کو آزاد کرنا،زوجہ
کو طلاق دینا،اس کا حکم یہ ہے کہ ولی اجازت دے ،تو بھی نہیں کر سکتا ،بلکہ خود
بھی بالغ ہونے کے بعد اپنی نابالغی کے ان تصرفات کو نافذ کرنا
چاہے نہیں کر سکتا ،اس کا باپ یا قاضی ان تصرفات کو کرنا
چاہیں، تو یہ بھی نہیں کر سکتے ۔“(بھار
شریعت ،جلد3،حصہ 15،صفحہ 204،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)
نابالغ کی چیز میں سے بلا حاجت والدین کو خود کھانے
کی اجازت نہ ہونے کے متعلق الاشباہ والنظائر میں ہے:”اذا
أھدی للصبی شئ وعلم انہ لہ فلیس للوالدین الاکل منہ
لغیر حاجۃ“ ترجمہ:اگر بچے کو کوئی چیز ہدیہ
کی گئیاور معلوم ہے کہ وہ اسی کے لیے ہے ،تو
والدین اس میں سے بلا حاجت
نہیں کھا سکتے۔(الاشباہ والنظائر،احکام الصبیان،صفحہ 26،
مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)
نابالغ کی مملوکہ چیز کسی اور کو دینے کی اجازت
نہ ہونےکےبارے میں علامہ علاؤالدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1088ھ/1677ء) لکھتےہیں:”ولا یجوز ان یھب شیئا من مال طفلہ“ ترجمہ: والد کےلیےیہ جائز نہیں کہ اپنے نابالغ بیٹے
کے مال میں سے کسی کو کچھ
تحفۃً دے ۔ (الدرالمختار مع رد المحتار،کتاب المأذون،جلد 8، صفحہ 583،مطبوعہ کوئٹہ )
نابالغ کی ایسی چیز جس کے پڑے رہنے سے ضائع ہونے کا
اندیشہ ہو ، تو بچے کے حفظِ مال کی خاطر ، اُس کے والد کو بیچنے کی اجازت ہے ، چنانچہ علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے
ہیں:”وحاصلہ أن المنقول مما یخشی ھلاکہ فللأب بیعہ حفظا لہ“ترجمہ : اور حاصلِ کلام یہ ہے کہ نابالغ کی ایسی
منقولی اشیاء جن کے ہلاک ہونے کا اندیشہ ہو ، ان کی حفاظت
کی خاطر والد کا ان کو بیچنا جائز ہے ۔ (الدرالمختار مع رد
المحتار، باب النفقہ ، مطلب في نفقة الاصول ،جلد 5،صفحہ 374،مطبوعہ کوئٹہ)
اور والد کا خود خریدنا بھی جائز ہے ، چنانچہ علامہ
محمد بن محمود اُسْتَرُوْشَنی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:632ھ/1234ء) فتاوی صغریٰ کے
حوالے سے نقل کرتے ہیں:”وفی الاب افتینا بظاھر
الروایۃ انہ یملک ان یبیع مالہ من ابنہ او
یشتری مال الابن لنفسہ بشرط
الا یتضرر بہ الصغیر فلو باع بمثل القیمۃ او
اشتری بمثل القیمۃ یجوز“ترجمہ: باپ
کے بارے میں ہم نے ظاہر الروایہ پر فتوی دیا ہے اور وہ
یہ ہے کہ باپ کو اختیار
ہے،چاہےوہ اپنا مال بچے کو بیچ دے یا بچے کا مال خود
خرید لے، لیکن اس شرط کے ساتھ
کہ بچے کا اس میں نقصان نہ ہو،لہٰذا اگر مثلی قیمت کے
بدلے مال بیچایا مثلی قیمت کے بدلے بچے کا مال خریدا، تو یہ جائز ہے۔
مزید اِسی میں لکھتے ہیں :”فلو باع الاب او الوصی عروض الصغیر بمثل
القیمۃ یجوز …الا ان الاب اذا کان مفسدا وباع متاع الصغیر
فالجواب فیہ ما ذکرنا ان فیہ روایتین“ترجمہ: اگر باپ یا وصی نے بچے کا (منقولی) ساز و سامان
مثلی قیمت پر فروخت کیا،تو یہ جائز ہے اور اگر باپ
مُفْسِدہو اور وہ بچے کا سامان فروخت کرے ، تواس کا جواب وہی ہے،جو ہم نے
ذکر کیا کہ اس میں دو
روایتیں ہیں۔ (احکام الصغار، مسائل البیوع، صفحہ186، دار الکتب
العلمیہ، بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کنڈا لگا کر بجلی استعمال کرنے کاحکم
غیر محرم لے پالک سے پردے کا حکم
جوان استاد کا بالغات کو پڑھانےکا حکم؟
شوہر کے انتقال کے بعد سسر سے پردہ لازم ہے یانہیں؟
کیا دلہن کو پاؤں میں انگوٹھی پہنانا جائز ہے؟
مرد کا جوٹھا پانی پینے کا حکم
محرم کے مہینے میں شادی کرنا کیسا؟
موبائل ریپئرنگ کے کام کی وجہ سے ناخن بڑھانا کیسا؟