Awara Kutta Nuqsan Pahunchata Ho Tu Usay Marne ka Ka Kya Hukum Hai ?

آوارہ کتا نقصان پہنچاتا ہو،تو اسے مارنے کا کیا حکم ہے؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor:12604

تاریخ اجراء: 22 جمادی الاولیٰ 1444 ھ/17 دسمبر 2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی آوارہ کتامرغیوں کو پکڑ کر کھاجاتا ہو، یا جانوروں کو کاٹ کر نقصان پہنچاتا ہو،تو ایسے کتے کو  مارنے کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ایسا آوارہ کتا جو ضرر و نقصان پہنچاتا ہو، اس کو مار نا،جائز ہے ، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں جو آوارہ کتا مرغیوں کو کھا جاتا ہے یا دیگر جانوروں یا لوگوں کوکاٹ کر نقصان پہنچاتا ہے ،تو اس کتے کوقتل کرنا ، جائز ہے،نیز ایسے ضرر رساں کتے کو مار ڈالنے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے پکڑ کریا پکڑنا ممکن نہ ہو، تو کسی  طرح بے ہوشی کی دوا کھلا کر بے ہوش کرنے کے بعد  تیز چھری کے ساتھ ذبح کر دیا جائے ، اس کے علاوہ اسے بلا ضرورت ڈنڈے مارنے ، پتھر مارنے، رسی باندھ کرگھسیٹنے یا زہر دے کر  تڑپا تڑپا کر مارنےکی ہر گز اجازت نہیں۔

   واضح رہے کہ کتا ایک حرام جانور ہے ، لہذا ذبح کردینے سے اس کا گوشت ہرگز حلال نہ ہوگا۔

   درِمختار میں ہے:’’وجاز قتل مایضر منھا ککلب عقور وھرۃ تضر“ترجمہ:جس  جانور سے نقصان پہنچتا ہو اس کا قتل جائز ہے،جیسے کٹکھنا کتا،اور موذی بلی۔(الدر المختار متن ردالمحتار،جلد10،صفحہ517،مطبوعہ:کوئٹہ)

   تبیین الحقائق وتکملۃ البحر الرائق میں ہے:”جاز قتل ما يضر من البهائم كالكلب العقور والهرة إذا كانت تأكل الحمام والدجاج لإزالة الضرر ويذبحها ولا يضر بها ؛ لأنه لا يفيد فيكون معذبا لها بلا فائدة“یعنی جو چوپائے  نقصان پہنچاتے ہوں ، ضرر دور کرنے کے لئےانہیں قتل کرنا،  جائز ہے ،جیسے کٹکھنا کتا  اور بلی جب کبوتروں  اور مرغیوں کو کھا جائے  ۔ (ایسے جانوروں )  کو ذبح کیا جائے اور ڈنڈی وغیرہ سے نہ مارے ، کیونکہ یہ  ڈنڈی وغیرہ سے مارنا جانور کو بغیر فائدے کے ایذا دینا ہے (جو کہ گناہ ہے ) (تکملۃ البحر الرائق، جلد9،صفحہ 359،مطبوعہ:کوئٹہ)

   حدیقہ ندیہ میں ہے:”(الھرۃ اذا کانت موذیۃ )بخطف اللحم واکل فراخ الحمام الاھلی والدجاج وتخمیش ایدی الصغار ونحو ذلک(تذبح بسکین)حادۃ وترمی(ولا تضرب)لانہ عبث حیث لا ادراک لھا ولیست قابلۃ لتعلم ترک الاذی“یعنی بلی جب ایذا دیتی ہو (مثلاً)گوشت اُچک کر لے جائے، گھریلو کبوتروں و مرغیوں کے بچے کھا جائے، چھوٹے بچوں کے ہاتھوں  کو نوچ لے وغیرہ، تو اسے تیز چھری کے ساتھ ذبح کر کے پھینک دیا جائے ، اور اسے ہاتھ وغیرہ سے مارا نہ جائے کہ جب اس کو ان  چیزوں کی سمجھ نہیں اور نہ ہی اس میں ترکِ اذیت  کو جاننے کی قابلیت ہے  تو مار پیٹ کرنا عبث ہے۔(الحدیقۃ الندیۃ، جلد 2،صفحہ 427،مکتبہ نوریہ رضویہ، فیصل آباد)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”بلی اگر ایذا پہنچاتی ہے ،تو اسے تیز چھری سے ذبح کر ڈالیں ، اسے ایذا دے کر نہ ماریں“(بھارِ شریعت، جلد3،حصہ 16، صفحہ 655،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم