Aurat Terhi Pasli Se Bani Hai Ya Mitti Se ?

عورت ٹیڑھی پسلی سےبنی ہے یامٹی سے؟

مجیب: ابوالحسن ذاکر حسین عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-1256

تاریخ اجراء:       18ربیع الثانی 1444 ھ/14نومبر2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   یہ کہاجاتاہےکہ عورت ٹیڑھی پسلی سےبنی ہے۔اس پرسوال یہ ہےکہ کیاعورت مٹی سےنہیں بنی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   تمام انسانوں کی اصل حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام ہیں،جن کی پیدائش مٹی سے ہوئی، لہذااس معنی کےلحاظ سے مردوعورت سب مٹی سےہی بنےہیں کہ ہماری اصل یعنی حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام مٹی سےبنائےگئے۔البتہ عورتوں کوٹیڑھی پسلی کی پیدائش اس بنا پر کہتےہیں کہ سب سےپہلی عورت یعنی حضرت حوا،رضی اللہ تعالی عنھا کو حضرت آدم کی پسلی سےپیداکیاگیاہے،اورتمام عورتیں  حضرت حوا کی اولاد ہیں،فطری طور پران میں کچھ نہ کچھ  کجی سخت مزاجی  پائی جاتی ہے ۔خلاصہ یہ کےعورت کاٹیڑھی پسلی سےپیداہونا،اس بات کےمنافی نہیں کہ اس  کی اصل مٹی سے ہو،بلکہ اصل تمام مردوعورتوں کی مٹی ہی ہے۔ اور حقیقت میں حضرت آدم علیہ الصلوۃ و السلام اور حضرت حوّا رضی اللہ عنہا کے علاوہ باقی عام طورپر انسان مردوعورت کے پانی کی بُوند یعنی نطفے سے بنے ہیں ۔

   قرآن پاک میں سورہ دھرمیں ارشادخداوندی ہے :( اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ)ترجمہ کنزالایمان: بیشک ہم نے آدمی کو پیدا کیا ملی ہوئی منی سے۔(سورۃ الدھر،پ29،آیت02)

   اس کے تحت تفسیرخزائن العرفان میں ہے "مردوعورت کی ۔"(خزائن العرفان)

   سورۃ الحجرمیں ارشادخداوندی ہے :( وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ)ترجمہ کنزالایمان: اور بےشک ہم نے آدمی کو بَجتی ہوئی مٹی سے بنایا جو اصل میں ایک سیاہ بودار گارا تھی۔ (سورۃ الحجر،پ14،آیت26)

   اس آیت کریمہ میں موجودلفظ"الانسان "کی وضاحت کرتے ہوئے خزائن العرفان میں فرمایا:" یعنی حضرت آدم علیہ السلام کو۔۔۔۔ اللہ تعالٰی نے جب حضرت آدم علیہ السلام کے پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو زمین سے ایک مشتِ خاک لی ، اس کو پانی میں خمیر کیا جب وہ گارا سیاہ ہوگیا اور اس میں بو پیدا ہوئی تو اس میں صورتِ انسانی بنائی  پھر وہ سوکھ کر خشک ہوگیا تو جب ہوا اس میں جاتی تو وہ بجتا اور اس میں آواز پیدا ہوتی ، جب آفتاب کی تمازت سے وہ پختہ ہوگیا تو اس میں روح پھونکی اور وہ انسان ہوگیا ۔"(خزائن العرفان)

   حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے،فرماتےہیں، حضور علیہ الصلاۃ والسلام نےارشادفرمایا:" استوصوا بالنساء خيرا فإنهن خلقن من ضلع وإن أعوج شيء في الضلع أعلاه فإن ذهبت تقيمه كسرته وإن تركته لم يزل أعوج فاستوصوا بالنساء خيرا" بیویوں کے متعلق نیکی کی وصیت قبول کرو کیونکہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور یقینًا پسلی کا ٹیڑھا حصہ اس کا اوپر کا ہےتو اگر اسے سیدھا کرنے لگو توتو ڑ دو گے اور اگر چھوڑ دو تو ٹیڑھا رہے گالہذا عورتوں کے متعلق وصیت قبول کرو۔(مشکاۃ المصابیح،ج2،ص594،مطبوعہ:بیروت)

   اس کے تحت التنویر شرحِ جامع الصغیر میں ہے : (فإن المرأة خلقت من ضلع) المراد بالمرأة هنا حوّاء أم البشر لأنها خلقت من ضلع آدم ۔۔۔ ولما كان أصلهن من ضلع أعوج كان له أثر في طباعهن ، وإلا فإن ما سوى حوّاء خلق من ماء كما قال تعالٰى: {وَاللهُ خَلَقَ كُلَّ دَابَّةٍ مِنْ مَاءٍ} (النور: 45) ، ولأن خلق الأفراد داخل تحت خلق الأصل كما قيل في قوله تعالٰى: {وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِينٍ} {ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً في قَرَارٍ مَكِينٍ} (المؤمنون: 12۔13) ، ملخصا “ یعنی یہاں عورت سے انسانوں کی والدہ حضرت حوا رضی اللہ عنہا مراد ہیں کیونکہ انہیں حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے اور چونکہ عورتوں کی اصل ٹیڑھی پسلی سے ہے ، لہٰذا ان کی طبیعتوں میں اس کا اثر ہے ، ورنہ حضرت حوّا رضی اللہ عنہا کے علاوہ ہر چیز پانی سے پیدا کی گئی ہے ، جیسا کہ اللہ کریم کا ارشاد ہے : (اور اللہ نے زمین پر چلنے والا ہر جاندار پانی سے بنایا) اور اس لیے بھی کہ افراد کی پیدائش اصل کی پیدائش کے تحت داخل ہوتی ہے ، جیسا کہ اللہ پاک کے اس فرمان (ترجمہ : اور بیشک ہم نے انسان (یعنی حضرت آدم علیہ السلام) کو چُنی ہوئی مٹی سے بنایا ۔ پھر اسے (یعنی حضرت آدم علیہ السلام کی نسل کو) ایک مضبوط ٹھہراؤ (یعنی ماں کے رِحم) میں پانی کی بُوند بنایا) کی تفسیر میں کہا گیا ہے ۔(التنویر شرحِ جامع الصغیر ، ج2 ، ص348 ، مطبوعہ مکتبۃ دار السلام ، الریاض)

   اس حدیث پاک کےتحت مفتی احمدیارخان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ارشادفرماتےہیں: "حضرت حوا کی پیدائش آدم علیہ السلام کی پسلی کے اوپری حصہ سے  ہوئی جو ٹیڑھا ہے اور تمام عورتیں انہی حوا  کی اولاد سے ہیں فطری طور پر سب میں قدر کجی سخت مزاجی ہے اور رہے گی۔  "(مرآۃالمناجیح،ج5،ص109،مطبوعہ:مکتبہ اسلامیہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم