Aurat Ke Liye Tang Aur Chust Libas Pehnne Ka Hukum

عورت کے لیے چست اور تنگ لباس پہننے کا حکم؟

مجیب: مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر:09

تاریخ اجراء: 16 محرم الحرام1436ھ/10نومبر 2014ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ عورت کاٹائٹ پاجامہ پہنناکیساہے؟ آجکل مارکیٹ میں یہ پاجامے ٹائٹس کے نام سے ہی بکتے ہیں،انہی میں پینٹ کی ایک قسم ٹائٹ بھی ہے،عورت کایہ پہننا کیساہے ؟اس کو پہن کرعورت کی پنڈلیوں کی پوری ہیئت واضح ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات توچاک اتنے کھلے ہوتے ہیں کہ جسم توظاہرنہیں ہورہا ہوتااورنہ ہی جسم چمک رہاہوتاہے ، البتہ رانوں کی سائیڈوں کااوپرتک کے حصہ کی ہیئت ظاہر ہوتی ہے ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ٹائٹس تو بنائی ہی اس لیے جاتی ہیں کہ عضو کی ہیئت ظاہر ہو ، ایسے کپڑے اگرچہ موٹے ہوں ، مگر پھر بھی ایک طرح کی بے ستری ہے ، عضو کی پوری بناوٹ ظاہر ہوتی ہے  ، لہٰذا بے پردگی کی وجہ سے بھی ناجائز ہے ۔ یونہی کافرہ اور فاسقہ عورتوں سے مشابہت بھی ہے یہ بھی ممنوع و ناجائز ہونے کی دلیل‘اس لئے مسلمان عورتیں اس کے قریب بھی نہ جائیں۔الامان والحفیظ اسے تو  حدیث شریف میں قیامت کی نشانیوں میں شمار کیا گیا ہے کہ عورتیں کاسیات عاریات ہوں گی یعنی لباس پہنیں گی مگر برہنہ ہوں گی ، اس کی شرح میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ چست لباس پہنے گی جس سے بدن کی بناوٹ ظاہر ہوگی ۔

   الغرض گھر کے مردوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ گھر کی خواتین کو نت نئی بے پردگیوں سے باز رکھیں ورنہ باجود قدرت و استطاعت نہ روکنے کی وجہ سے وہ بھی سخت گنہگار ہوں گے عورتوں کو شرم و حیا اور پردہ کی تلقین کریں ، گھر سے باہر نکلنے میں کسی قسم کی بے پردگی نہ ہو ، اس کا لحاظ رکھا جائے ۔ قیامت کے دن دردناک عذاب اور اپنے کیے کے حساب کا خوف کرتے ہوئے شریعت کے دائرے میں زندگی بسر کی جائے ۔

   سیدی اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں’’چوڑی دار پاجامہ پہننا منع ہے کہ وضع فاسقوں کی ہے۔ شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آداب اللباس میں فرماتے ہیں:سراویل کہ در عجم متعارف است کہ اگر زیر شتالنگ باشد یا دوسہ چین واقع شود بدعت وگناہ است۔شلوار جو عجمی علاقوں میں مشہور ومعروف ہے اگر ٹخنوں سے نیچے ہو یا دو تین انچ (شکن) نیچے ہو تو بدعت اور گناہ ہے۔

   یونہی بوتام لگا کر پنڈلیوں سے چمٹا ہوا بھی ثقہ لوگوں کی وضع نہیں۔ آدمی کو بدوضع لوگوں کی وضع سے بھی بچنے کا حکم ہے ، یہاں تک کہ علماء درزی اور موچی کو فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص فاسقوں کے وضع کے کپڑے یا جوتے سلوائے نہ سیے اگر چہ اس میں اجر کثیر ( بہت زیادہ مال ) ملتاہو۔

   فتاوٰی امام قاضی خاں میں ہے:الاسکاف اوالخیاط اذا استوجر علی خیاطۃ شیء من زی الفساق ویعطی لہ فی ذٰلک کثیر الاجر لایستحب لہ ان یعمل لانہ اعانۃ علی المعصیۃ۔اگر موچی یادرزی سے جب فاسقوں کی وضع کے مطابق کوئی چیز بنوانے یا سلوانے کے لئے اجارہ کیا جائے اور اس کام کے لئے اسے بہت اجرت دی جائے ، تو اس کے لئے یہ کام کرنا بہتر نہیں اس لئے کہ یہ گناہ کے سلسلے میں امداد ہے۔تویہ پاجامہ بھی اس راہ سے شرعی نہ ہوا، اگر چہ ٹخنوں سے اونچا ہونے میں حد شرع سے متجاوز نہیں ، شرعی کہنا اگرصرف اسی حیثیت سے ہے تو وجہ صحت رکھتاہے۔ اور اگر مطلقا مرضی و پسندیدہ شرعی مراد جیسا کہ ظاہر لفظ کا یہی مفاد تو صحیح نہیں۔ واللہ سبحٰنہ و تعالیٰ اعلم۔‘‘(فتاوی رضویہ ،جلد22،صفحہ 172، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   اسی فتاوی رضویہ میں ہے:’’یونہی تنگ پائچے بھی نہ چوڑی دار ہوں نہ ٹخنوں سے نیچے، نہ خوب چست بدن سے سلے کہ یہ سب وضع فساق ہے اور ساتر عورت کا ایسا چست ہونا کہ عضو کا پورا انداز بتائے یہ بھی ایک طرح کی بے ستری ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جو پیشگوئی فرمائی کہ نساء کا سیات عاریات ہوں گی کپڑے پہنے ننگیاں، اس کی وجوہ تفسیر سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کپڑے ایسے تنگ چست ہوں گے کہ بدن کی گولائی فربہی انداز اوپر سے بتائیں گے جیسے بعض لکھنؤ والیوں کی تنگ شلواریں چست کرتیاں۔ردالمحتارمیں ہے:’’فی الذخیرۃ وغیرھا ان کان علی المراۃ ثیاب فلا باس ان یتامل جسدھا اذا لم تکن ثیابھا ملتزقۃ بھا بحیث نصف ماتحتھا وفی التبیین قالوا ولا باس بالتأمل فی جسدھا وعلیھا ثیاب مالم یکن ثوب یبین حجمھا فلا ینظر الیہ حنیئذ لقولہ علیہ الصلٰوۃ والسلام من تامل خلف امرأۃ ورأی ثیابھا حتی تبین لہ حجم عظامھا لم یرح رائحۃ الجنۃ ولانہ متی کان یصف یکون ناظرا الی اعضائھا ؎ اھ ملخصا۔ذخیرہ وغیرہ میں ہے کہ اگر عورت نے لباس پہن رکھا ہو تو اس کے جسم کو دیکھنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ لباس اس قدر تنگ اور چست نہ ہو کہ سب کچھ عیاں ہونے لگے۔ تبیین میں ہے کہ ائمہ کرام نے فرمایا :جب عورت لباس پہنے ہو تو اس کی طرف دیکھنے میں کچھ حرج نہیں بشرطیکہ لباس ایسا تنگ اور چست نہ ہوجواس کے حجم کو ظاہر کرنے لگے (اگرایسی صورت حال ہو توپھر اس طرف نہ دیکھا جائے۔)حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس ارشادگرامی کی وجہ سے کہ آپ نے فرمایا کہ جس کسی نے عورت کو پیچھے سے دیکھا اوراس کے لباس پر نظر پڑی یہاں تک کہ اس کی ہڈیوں کا حجم واضح اور ظاہر ہوگیا تو ایسا شخص (جو غیر محرم کو بغور دیکھ کر لطف اندوز ہونے والا ہے)جنت کی خوشبو تک نہ پائے گا اور اس لئے کہ لباس سے انداز قدوقامت ظاہر ہو تو اس لباس کو دیکھنا مخفی اعضاء کو دیکھنے کے مترادف ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ،جلد22،صفحہ 162 ، 163 ،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

   میرے پیرومرشدحضرت علامہ مولانامحمدالیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کی کتاب پردے کے بارے سوال جواب میں ہے’’سوال:گھر سے باہر نکلتے وقت اسلامی بہنوں کو کن کن باتوں کا خیال رکھنا چاہئے؟

   جواب:شَرعی اجازت کی صُورَت میں گھر سے نکلتے وَقت اسلامی بہن غیر جاذِبِ نظر کپڑے کا ڈِھیلا ڈھالا مدنی بُرقع اَوڑھے، ہاتھوں میں دستانے اور پاؤں میں جُرابیں پہنے۔ مگر دستانوں اور جُرابوں کا کپڑا اتنا باریک نہ ہو کہ کھال کی رنگت جھلکے۔ جہاں کہیں غیر مردوں کی نظر پڑنے کا امکان ہو وہاں چہرے سے نِقاب نہ اٹھائے مَثَلاً اپنے یاکسی کے گھر کی سیڑھی اور گلی مَحَلّہ وغیرہ۔نیچے کی طرف سے بھی اِس طرح بُرقع نہ اٹھائے کہ بدن کے رنگ برنگے کپڑوں پر غیر مردوں کی نظر پڑے۔ واضح رہے کہ عورت کے سر سے لے کر پاؤں کے گِٹّوں کے نیچے تک جسم کا کوئی حصّہ بھی مَثَلاً سر کے بال یا بازو یا کلائی یاگلا یا پیٹ یا پنڈلی وغیرہ اجنبی مرد (یعنی جسں سے شادی ہمیشہ کیلئے حرام نہ ہو )پر بلااجازتِ شَرْعی ظاہر نہ ہو بلکہ اگر لباس ایسامَہِین یعنی پتلا ہے جس سے بدن کی رنگت جَھلکے یاایسا چُست ہے کہ کسی عُضْو کی ہَیْئَتْ(یعنی شکل و صورت یا اُبھار وغیرہ)ظاہِر ہو یادوپٹّہ اتنا باریک ہے کہ بالوں کی سیاہی چمکے یہ بھی بے پَردَگی ہے ۔‘‘ (پردے کے بارے میں سوال جواب،صفحہ42/43،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم