Aurat Ka Naak, Kaan Chidwane Mein Ek Se Zyada Surakh Karwana Kaisa?

عورت کا ناک، کان چھدوانے میں ایک سے زیادہ سوراخ کروانا کیسا؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Sar-7803

تاریخ اجراء:12رمضان المبارک1443ھ/14 اپریل 2022

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ عورت کا ناک اور کان چھدوانا، جائز ہے، سوال یہ ہے کہ جتنے سوراخ عام طور پر رائج ہیں، اس سے زائد کان یا ناک میں سوراخ  کروانا ،جائز ہے؟مثلاً: ناک کی ایک جانب سوراخ ہو اور دوسری جانب چھدوانا یا ناک کے درمیان میں چھدوانا، جیسا کہ بعض جگہ یہ طریقہ رائج ہے، کیا یہ درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   دین اسلام میں خواتین کے لیے زیب و زینت اور آرائش و زیبائش مطلقاً منع نہیں ، بلکہ شریعت کی حدود کی رعایت کے ساتھ جائز و مشروع ہے، جس کا ایک طریقہ عورتوں کا کان میں سوراخ کر کے زیور لٹکانا ہے اور اس سے مقصود زینت کا حصول ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانے میں عورتیں کان چھدواتی (یعنی سوراخ نکلواتی)تھیں، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کبھی منع نہ فرمایا اور فقہائے اسلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منع نہ فرمانے سے استدلال کرتے ہوئے اسے جائز قرار دیا۔

   اور زمانہ نبوی میں عورتیں ناک نہیں چھدواتی تھیں، لیکن جب فقہائے اسلام نے دیکھا کہ بعض علاقوں میں عورتیں ناک میں بھی سوراخ نکلواتی اور اس میں بطورِ زینت زیور لٹکاتی ہیں، تو انہوں نے اس کے بھی جواز کا فتوی دیا، کیونکہ کان میں سوراخ  کرنا اور زیور پہننا عورتوں کی زینت کے طور پر ہےاور ناک میں سوراخ  کرنے سے بھی یہی مقصود ہے، اس لیے اسے صرف کان کے ساتھ خاص نہیں کیا  گیا، بلکہ زینت مقصود ہونے کی وجہ سے ناک میں سوراخ  کو بھی جائز قرار دیا گیا۔

   اس تمہید کے بعد پوچھی گئی صورت کا جواب یہ ہے کہ ناک اور کان میں سوراخ  کرنا اور زیور لٹکانا عورتوں کے لیے زینت ہونے کی وجہ سے جائز ہے اور اگر کسی علاقے میں عزت دار مسلمان عورتیں اپنے ایک ہی کان یا ناک میں ایک سے زیادہ سوراخ  کر کے اس میں زیور لٹکاتی ہوں، تاکہ اس سے زینت حاصل ہو، تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔کہ ایک سوراخ سے جو مقصود (حصولِ زینت)ہے، وہی ایک سے زیادہ سوراخوں سے مطلوب ہے۔اور زینت کا انداز ہر علاقے والوں کا اپنا اپنا جداگانہ ہوتا ہے،کسی علاقے میں ناک میں نتھ دائیں طرف، کسی میں بائیں طرف اور بعض علاقوں میں دونوں طرف پہنی جاتی ہے، اسی طرح بعض علاقوں میں عورتیں کان میں ایک سوراخ  کر کے اس میں بالی پہنتی ہیں اور بعض میں ایک سے زیادہ سوراخ  کر کے زیادہ زیور لٹکاتی ہیں (جیسا کہ پاکستان کے بعض علاقوں کی عورتوں میں رائج ہے)اور اسے اُس علاقے میں غیر مہذب طریقہ شمار نہیں کیا جاتا، لہذا اس طرح عورتوں کا زینت کے لیے کان میں ایک سے زیادہ سوراخ  کروانا یا ناک میں دونوں طرف سوراخ کروانا ،جائز ہے۔

   ہاں اس طرح کا سوراخ نکلوانا جو کفار و فساق عورتوں کا طریقہ ہو، جیسا کہ بعض یورپی ممالک میں فساق عورتیں ناک کے درمیان سوراخ  کر کے اس میں کوئی لاکٹ پہنتی ہیں اور عزت دار مسلمانوں میں ایسا ہرگز رائج نہیں، تو ایسا سوراخ نکلواناشرعا ممنوع ہے کہ اسلام نے کفار و فساق کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے اور یہ بلا اجازت شرعی اللہ عزوجل کی تخلیق کو تبدیل کرنا بھی ہے اور اللہ عزوجل کی تخلیق کو تبدیل کرنا، ناجائز و حرام ہے،البتہ اگر یہی سوراخ بھی کسی علاقے میں شریف خواتین میں بھی  رائج ہو، جیسے دنیا میں مختلف علاقوں کے رواجوں کی حد نہیں تو ان علاقوں میں اس کی بھی اجازت ہوگی اور جہاں یہ کفارو فاسقات کے ساتھ مشابہت ہو ،وہاں ممنوع ہوگا۔ 

   جائز زینت کے بارے میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے﴿قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰهِ الَّتِیْۤ اَخْرَ جَ لِعِبَادِهٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِترجمہ: تم فرماؤ! اللہ کی اس زینت کو کس نے حرام کیا، جو اس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا فرمائی ہے؟ اور پاکیزہ رزق کو (کس نے حرام کیا؟)۔(پارہ 8، سورۃ الاعراف ، آیت 32)

   عورتوں کے کان چھدوانےکے ثبوت کے بارے میں صحیح بخاری میں ہے:”عن ابن عباس رضي اللہ عنهما أن النبي صلى اللہ عليه وسلم صلی  يوم العيد ركعتين، لم يصل قبلها ولا بعدها، ثم أتى النساء ومعه بلال، فأمرهن بالصدقة، فجعلت المرأة تلقي قرطها“ترجمہ:حضرت عبد اللہ  بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے عید کے روز دو رکعتیں پڑھیں ، اس سے پہلے یا بعد کبھی نہیں پڑھی،پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عورتوں کے پاس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، آپ نے ان عورتوں کو صدقہ کرنے کاحکم دیا، تو عورت اپنے کان سے بالیاں نکال کر (حضرت بلال کے کپڑے میں ) ڈالتی تھی۔ (صحيح البخاری،کتاب اللباس،باب القرط للنساء،جلد 7، صفحہ 158، مطبوعہ بیروت)

   مذکورہ بالا حدیث کے تحت فتح الباری میں ہے:واستدل به على جواز ثقب أذن المرأة لتجعل فيها القرط وغيره مما يجوز لهن التزين به ترجمہ:اور اس روایت سے عورت کے کان میں سوراخ نکالنے کے جواز پر استدلال کیا گیا ہے تاکہ وہ ان میں بالیاں اور اس کے علاوہ وہ چیزیں ڈال سکے، جو اس کے لیے بطورِ زینت جائز ہے۔(فتح الباری، باب القرط للنساء، جلد 10، صفحہ 331، مطبوعہ بیروت)

   اسی بارے میں فتاوی قاضی خان میں ہے:و لا بأس بثقب أذن الطفل لأنهم كانوا يفعلون ذلك في الجاهلية و لم ينكر عليهم  رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم“ترجمہ:بچی کے کان میں سوراخ نکالنے میں کوئی حرج نہیں ،کیونکہ لوگ زمانہ جاہلیت میں یہ عمل کرتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے انہیں اس سے منع نہ فرمایا۔(فتاوی قاضی خان،ج03،ص251،مطبوعہ بیروت)

   کان میں سوراخ نکلوانے کے بارے میں بحرالرائق اورتبیین الحقائق میں ہے:”وكذا يجوز ثقب أذن البنات الأطفال لأن فيه منفعة الزينة، وكان يفعل ذلك في زمنه  عليه الصلاة والسلام إلى يومنا هذا من غير نكير “ترجمہ:اورایسے ہی چھوٹی بچیوں کے کانوں میں سوراخ نکالنا جائز ہے،کیونکہ اس میں زینت کا فائدہ حاصل ہوتاہے اوریہ عمل نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر آج تک بغیر کسی انکارکے جاری وساری ہے۔(بحرالرائق،ج08،ص554،مطبوعہ دارالکتاب الاسلامی)(تبیین الحقائق،ج06،ص227،مطبوعہ بیروت )

   کان میں سوراخ  کرنے کی اجازت زینت کی منفعت حاصل کرنے کے لیے ہے، چنانچہ الاختیارلتعلیل المختارمیں ہے:’’ولابأس بثقب اذن البنات الاطفال لانہ ایلام لمنفعۃ الزینۃوایصال الالم الی الحیوان لمصلحۃ تعودالیہ جائزکالختان‘‘ترجمہ:بچیوں کے کانوں میں سوراخ  کرنے میں کوئی حرج نہیں،کیونکہ یہ زینت کی منفعت کے لیے تکلیف دینا ہے اور جاندار کو کسی ایسی مصلحت کی وجہ سے تکلیف دینا کہ جو مصلحت اس کی طرف لوٹتی ہو،جائز ہے، جیسے ختنہ کرانا۔(الاختیارلتعلیل المختار،کتاب الکراھیۃ ،جلد 4، صفحہ 167، مطبوعہ بیروت)

   ناک میں سوراخ کرنے کے بارے میں علامہ علاؤ الدین حصکفی علیہ رحمۃ اللہ القوی ارشاد فرماتے ہیں:”ولا بأس بثقب أذن البنت والطفل استحسانا ملتقط. قلت: وهل يجوز الخزام في الأنف، لم أره“ترجمہ: بچی کے کان چھیدنے میں استحساناً  کوئی حرج نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ کیا ناک میں سوراخ  کرنا ،جائز ہے؟ میں نے اس بارے میں کوئی صراحت نہیں دیکھی۔

   اس عبارت کے تحت علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں:”لا بأس بثقب أذن الطفل من البنات وزاد في الحاوي القدسي: ولا يجوز ثقب آذان البنين قلت: إن كان مما يتزين النساء به كما هو في بعض البلاد فهو فيها كثقب القرط وقد نص الشافعية على جوازه“ترجمہ:بچیوں کے کان میں سوراخ کرنے میں حرج نہیں اور حاوی قدسی میں یہ  زیادہ کیاکہ لڑکوں کے کانوں میں سوراخ نکالناجائز نہیں۔میں(علامہ شامی علیہ الرحمۃ) کہتاہوں:اگر ناک میں سوراخ نکالنا عورتیں بطورِ زینت کرتی ہیں،جیساکہ بعض شہروں میں رائج ہے،تو وہ کان میں سوراخ نکالنے کی طرح جائز ہے اوراس کے جائز ہونے پر شوافع نے صراحت بیان فرمائی ہے۔(ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،ج06،ص420،مطبوعہ دارالفکر،بیروت)

   علامہ شامی کی اس عبارت کو نقل کرنے کے بعد اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں:”اقول:  و لا شک ان ثقب الاذن کان شائعا فی زمن النبی صلی اللہ  تعالی علیہ وسلم وقد اطلع صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ولم ینکرہ ثم لم یکن الا ایلاما للزینۃ فکذا ھذا بحکم المساواۃ فثبت جوازہ بدلالۃ النص المشترک فی العلم بھا المجتھدون وغیرھم کما تقرر فی مقررہ“ ترجمہ: میں کہتا ہوں کہ اس میں کچھ شک نہیں کہ کان چھیدنا، نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے عہد مبارک میں متعارف اور مشہور تھا اور حضور پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اس پر اطلاع پائی، مگر ممانعت نہیں فرمائی، پھر یہ (کان چھیدنے کی ) تکلیف پہنچانا، صرف زیب وزینت کے لیے ہو گا اور اسی طرح یہ (ناک چھیدنا)بھی ہے کہ دونوں کا حکم مساوی ہو گا۔ پس اس کا جائز ہونا، دلالتِ نص کی بنیاد پر ثابت ہو گیا، اس علم سے جس میں مجتہد وغیر مجتہد مشترک ہیں، جیسا کہ یہ بات اپنے محل میں ثابت ہو چکی ہے۔(فتاوی رضویہ، جلد 23،صفحہ 482، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   کان وغیرہ میں چھید کرنے کا مدار لوگوں کے انداز و اَطور پر ہے، اگر کوئی اور ممانعت کی وجہ نہ ہو (جیسے فساق سے مشابہت وغیرہ)تو اس زینت کے دلالۃ النص سے ثابت ہونے کی وجہ سے عورتوں کی اس زینت میں حرج نہیں،چنانچہ ناک میں سوراخ  کرنے کے متعلق کلام کرتے ہوئے اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن مزید ارشاد فرماتے ہیں:فان الثابت بدلالۃ النص کالثابت بالنص (کیونکہ جو دلالتِ نص سے ثابت ہو، وہ اسی طرح ہے جیسے نص سے ثابت ہے) اور دہنے بائیں جانب میں مختار ہیں، یہ کوئی امر شرعی نہیں،رسم زمانہ پر مبنی ہے، جس طرف چاہیں چھیدیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 23،صفحہ 482، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   اللہ تعالی  کی بنائی ہوئی چیز کو بدلنے کی ممانعت کے بارے میں قرآن پاک میں ہے﴿فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَا ، لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ترجمہ:(یہ)اللہ کی پیدا کی ہوئی فطرت (ہے) ، جس پر اس نے لوگوں  کوپیدا کیا ، اللہ کے بنائے ہوئے میں  تبدیلی نہ کرنا۔(پارہ 21، سورۃ الروم، آیت 30)

   قرآن پاک میں ہے﴿وَّ لَاُضِلَّنَّهُمْ وَ لَاُمَنِّیَنَّهُمْ وَ لَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَیُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَ لَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰهِ ، وَ مَنْ یَّتَّخِذِ الشَّیْطٰنَ وَلِیًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِیْنًاترجمہ:اور میں ضرور انہیں گمراہ کروں گا اور انہیں امیدیں دلاؤں گا، تو یہ ضرور جانوروں کے کان چیریں گے اور میں انہیں ضرور حکم دوں گا، تو یہ اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزوں کو بدل دیں گے اور جو اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنائے، تو وہ کھلے نقصان میں جا پڑا۔(پارہ 5، سورۃ النساء، آیت 119)

   اللہ کی تخلیق کو بدلنے کے بارے میں صحیح مسلم میں ہے:”لعن اللہ الواشمات و المستوشمات و النامصات و المتنمصات و المتفلجات للحسن المغيرات خلق اللہ تعالى“ترجمہ:گودنے والیاں، گدوانے والیاں، چہرے کے بال نوچنے والیاں، نُچوانے والیاں اور خوبصورتی کے لیے دانتوں کو کشادہ کرنے والیاں اور اللہ تعالی کی تخلیق کو بدلنے والیوں پر اللہ تعالی نے لعنت فرمائی ہے۔(الصحیح لمسلم، کتاب اللباس و الزینۃ، باب تحریم فعل الواصلۃ، جلد 2، صفحہ 205، مطبوعہ کراچی)

   شرعی حدود و قیود سے ہٹ کر عورتوں  کا جسم کے مختلف حصوں میں سوراخ  کرنا بھی اس وعید کے تحت داخل ہے، چنانچہ علامہ بدرالدین عینی علیہ رحمۃ اللہ الغنی لکھتے ہیں:’’ھو غرز إبرۃ أو مسلۃ ونحوھما فی ظھر الکف أو المعصم أو الشفۃ وغیر ذلک من بدن المرأۃ حتی یسیل منہ الدم ثم یحشی ذلک الموضع بکحل أو نورۃ أو نیلۃ لقدلعن الشارع من صنعت ذلک من النساء لأن فیہ تغییر الخلقۃ الأصلیۃ‘‘ترجمہ: وشم یہ ہے کہ سوئی یا سُوا وغیرہ کے ذریعے ہاتھوں کی پشت، کلائی، ہونٹ یا اس کے علاوہ عورت کے جسم میں سوراخ کیے جائیں، پھر جب خون بہنا شروع ہو، تو اس جگہ سرمہ ، نورہ یا نیل بھر دیا جائے،عورتوں میں سے جس نے یہ کیاشارع نے اس پرلعنت کی، کیونکہ اس میں خلقت اصلیہ کوبدلنا ہے۔(عمدۃ القاری،کتاب اللباس، باب المتفلجات للحسن،ج22، ص97،مطبوعہ بیروت)

   کسی قوم سے مشابہت اختیار کرنے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”من تشبہ بقوم فھو منھم“ترجمہ:جو شخص جس قوم سے مشابہت کرے ،تووہ انہی میں سے ہے۔(سنن ابی داؤد،کتاب اللباس،ج02،ص203،مطبوعہ لاھور)

   کفار یا فساق وفجار سے مشابہت کے ممنوع ہونے کے بارے میں فتاوی رضویہ میں ہے:”یہ لحاظ رکھنا چاہئے کہ عورتوں یا بدوضع آوارہ فاسقوں کی مشابہت نہ پیدا ہو، مثلا: مرد کو چولی دامن میں گوٹا پٹھا ٹانکنا مکروہ ہو گا، اگر چہ چار انگلی سے زیادہ نہ ہو کہ وضع خاص فساق ،بلکہ زنانوں کی ہے۔ علماء فرماتے ہیں اگر کوئی شخص فاسقانہ وضع کے کپڑے یا جوتے سلوائے (جیسے ہمارے زمانے میں نیچری وردی) تو درزی  اور موچی کو ان کا سینا مکروہ ہے کہ یہ معصیت پر اعانت ہے ،اس سے ثابت ہوا کہ فاسقانہ تراش کے کپڑے یا جوتے پہننا گناہ ہے۔“(فتاوی رضویہ،ج22،ص137، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   اسی میں ہے”دربارۂ لباس اصل کلی یہ ہے کہ جو لباس جس جگہ کفار یا مبتدعین یا فساق کی وضع ہے اپنے اختصاص و شعاریت کے مقدا رپر مکروہ یاحرام یا بعض صور میں کفر تک ہے۔“(فتاوی رضویہ ،جلد22،صفحہ184، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

       بہارشریعت میں ہے:”یہ حدیث ایک اصل کلی ہے، لباس و عادات و اطوار میں کن لوگوں سے مشابہت کرنی چاہیے اور کن سے نہیں کرنی چاہیے۔ کفار و فساق و فجار سے مشابہت بُری ہے اور اہل صلاح و تقویٰ کی مشابہت اچھی ہے، پھر اس تشبہ کے بھی درجات ہیں اور انہیں کے اعتبار سے احکام بھی مختلف ہیں۔ کفار و فساق سے تشبہ کا ادنیٰ مرتبہ کراہت ہے، مسلمان اپنے کو ان لوگوں سے ممتاز رکھے کہ پہچانا جا سکے اور غیر مسلم کا شبہ اس پر نہ ہوسکے۔“(بھارشریعت،ج03،ص407،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم