Aurat Ke Liye Half Aasteen Wala Libas Pehnna Kaisa ?

عورت کے لیے ہاف آستین والے کپڑے پہننا کیسا ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:13

تاریخ اجراء: 06ذوالحجۃ الحرام1442 ھ/17 جولائی 2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  عورتوں کا ”آدھے بازو“  والے کپڑے پہننا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    عورت کا غیر محرم مردوں کے سامنے آدھی آستین یعنی ہاف بازو والی قمیص پہن کر  بازو ظاہر کرنا، ناجائز، گناہ اور حرام ہے، کیونکہ عورت کے لباس  اور پردے کے معاملے میں اسلامی اُصول بہت واضح ہے اور وہ یہ کہ عورت کے چہرےکی ٹکلی،دونوں ہتھیلیوں اور دونوں قدموں کے علاوہ تمام بدن سِتر میں داخل ہے،یعنی عورت کے لئے غیر محرم کے سامنے بدن کے اِتنے  حصے کو چھپانا ضروری  ہےاور فتنے کے خوف کی وجہ سےفی زمانہ عورت کوچہرے کےپردے کابھی حکم ہے، لہٰذا غیر مردوں کےسامنے  ہاف بازو قمیص پہن کر بازو کھولنا بے سِتری ہے، جو کہ  حرام ہے۔ البتہ بیوی کا شوہر کے سامنےیا عورت کا اپنے محرم مردوں کےسامنے ایسی قمیص پہننا جائز ہے، کہ اُن کے حق میں عورت کا بازو سِتر میں داخل نہیں ہے۔

   عورتوں کو اپنا جسم چھپانے اور لوگوں کی نظروں سے بچانے کا اللہ پاک نے تاکیداً حکم ارشاد فرمایا، چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى ﴾ترجمہ کنزالعرفان:اور بے پردہ نہ رہو، جیسے پہلی جاہلیت کی بے پردگی۔ (الاحزاب:22/33)

   ایسا لباس پہننے والی عورتوں کے متعلق نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ صنفان من أهل النار لم أرهما، قوم معهم سياط كأذناب البقر يضربون بها الناس، ونساء كاسيات عاريات مميلات مائلات، رءوسهن كأسنمة البخت المائلة، لا يدخلن الجنة، ولا يجدن ريحها، وإن ريحها ليوجد من مسيرة كذا وكذا ‘‘ترجمہ:دوزخیوں کی دو جماعتیں ایسی ہیں،جنہیں میں نے (اپنے زمانے میں) نہیں دیکھا۔(میرے بعد والے زمانے میں ہوں گی )ایک جماعت تو وہ لوگ جن کے پاس بیلوں کی دُموں کی طرح کوڑے ہیں، وہ لوگوں کو اُس سے مارتے ہیں (یعنی ظالم لوگ)اور (ایک جماعت)ایسی عورتوں کی ہوگی  جو بظاہر کپڑے پہنے ہوئے ہوں گی،لیکن حقیقت میں بے لباس اور برہنہ ہوں گی ،بے حیائی کی طرف دوسروں کو مائل کرنے اور خود مائل ہونے  والیاں ہوں گی،اُن کے سر ایسے ہوں گے،جیسے بختی اونٹوں کی ڈھلکی ہو ئی کوہانیں ہوں،یہ جنت میں داخل نہ ہوں گی اور نہ ہی اس کی خوشبو سونگھیں گی، حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی  اتنی مسافت سے محسوس کی جائے گی ۔ (الصحیح لمسلم ، جلد3، صفحہ1680، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی)

   کپڑے پہننے کے باوجود برہنہ عورتیں کون ہیں، اِس کی ایک مراد بیان کرتے ہوئے امام شرف الدین نَوَوِی رَحِمَہ اللہ (سالِ وفات:676ھ/1277ء) مذکورہ حدیث کے تحت لکھتے ہیں:’’ تكشف شيئا من بدنها إظهارا لجمالها فهن كاسيات عاريات‘‘ترجمہ:جو عورتیں اپنا جسمانی جمال دِکھانے کے لیے اپنے بدن کا کچھ حصہ ظاہر کرتی ہیں، وہ حدیث مبارک کے مطابق کپڑے پہننے کے باوجود بے لباس ہیں۔(المنھاج مع الصحیح لمسلم، جلد17، صفحہ191، مطبوعہ داراحیاءالتراث العربی)

   عورت کے لیے جن اعضاء کا پردہ ضروری ہے، اُسے بیان کرتے ہوئے علامہ  علاؤالدین حصکفی رَحِمَہ اللہ  (سالِ وفات :1088ھ/1677ء) لکھتےہیں:’’(وللحرۃ)۔۔(جمیع بدنھا)حتی شعرھا النازل فی الاصح(خلا الوجہ والکفین)۔۔ (والقدمین۔۔(وتمنع)المرأۃ الشابۃ(من کشف الوجہ بین رجال)۔۔ (لخوف الفتنۃ) ‘‘ ترجمہ:چہرےکی ٹکلی،دونوں ہتھیلیوں اور دونوں قدموں کے علاوہ،آزاد عورت کا تمام بدن، حتی کہ لٹکے ہوئے بال بھی سترِ عورت ہیں۔۔اور فی زمانہ خوفِ فتنہ کی وجہ سے مردوں کے سامنےجوان عورت کو اپنا چہرہ ظاہر کرنا بھی  منع ہے۔(درمختار مع ردالمحتار ، جلد2،باب شروط الصلاة، مطلب في ستر العورة،  صفحہ95، مطبوعہ  کوئٹہ )

   امام اہلِ سنت امام احمد رضا خان رَحِمَہ اللہ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:’’عورت اگر نامحرم کے سامنے اس طرح آئے کہ اُس کے بال، گلے اور گردن یا پیٹھ یا کلائی یاپنڈلی کا کوئی حصہ ظاہر ہو یا لباس ایسا باریک ہو کہ اُن چیزوں سے کوئی حصہ اُس میں سے چمکے،تو یہ بالاجماع حرام اور ایسی وضع ولباس کی عادی عورتیں ”فاسقات“  ہیں اوراُن کے شوہر اگر اس پر راضی ہوں یا حسبِ مقدور بندوبست نہ کریں، تو دیوث ہیں۔‘‘(فتاویٰ رضویہ، جلد6،صفحہ509،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   محرم مرد کے حق میں بازو اعضائے ستر میں داخل نہیں، چنانچہ علامہ کاسانی حنفی رَحِمَہ اللہ  (سالِ وفات:587ھ/1191ء) لکھتے ہیں:’’يحل للرجل النظر من ذوات محارمه إلى رأسها وشعرها وأذنيها وصدرها وعضدها و ثديها وساقها وقدمها‘‘ترجمہ: کسی شخص کا اپنی محرم رشتے دار خاتون کے سر، بال، کانوں، سینے، بازو، چھاتی، پنڈلی اور قدموں کی طرف نظر کرنا ، جائز ہے۔(بدا ئع الصنائع، جلد6،کتاب الاستحسان ، صفحہ489،مطبوعہ کوئٹہ )

   مگر یہ دیکھنا ایک شرط کے ساتھ مقید ہے، چنانچہ علامہ  علاؤالدین حصکفی رَحِمَہ اللہ  (سالِ وفات: 1088ھ/ 1677ء) لکھتے ہیں:’’إن أمن شهوته وشهوتها أيضا وإلا لا‘‘ترجمہ:اگر مرد اور عورت کو اپنی شہوت نہ بھڑکنے پر اعتماد ہو تو دیکھنا جائز ہے، ورنہ ہرگز جائز نہیں۔(درمختار مع ردالمحتار ، جلد9،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی النظر واللبس،  صفحہ605، مطبوعہ  کوئٹہ )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم