Aurat Ka Pazeb Ya Ghungroo Pehnna Kaisa Hai ?

عورت کا پازیب یا گھنگرو پہننا کیسا ہے ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:43

تاریخ اجراء: 04ذو الحجۃ الحرام1442ھ15جولائی 2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ  عورت کا پاؤں میں پازیب یا گھنگرو پہننا کیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پازیب پاؤں میں پہنے جانے والے گھنگرو سے خالی یا چھوٹے چھوٹے گھنگروؤں پر مشتمل زیور کو کہتے ہیں، جبکہ گھنگرو ویسے تو تقریباًمٹر کے برابر دھات سے بنے ہوئے ایسے خول کو کہتے ہیں، جس میں دھات کا دانہ ہوتا ہے، جو ہلنے سے بجتا ہے، البتہ پاؤں میں پہننے کے لئے کئی گھنگروؤں کو دھاگے یا چمڑے وغیرہ پر فٹ کر دیا جاتا ہے، انہیں بھی ’’گھنگرو‘‘ کہتے ہیں اور ان کے پہننے کا مقصد آواز کا حصول ہوتا ہے اور انہیں عموماً ناچنے گانے والےاستعمال کرتے ہیں۔ (ماخوذ از اردو لغت و فیروز اللغات، وغیرہ)

   اس تفصیل کے بعد پازیب کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر عورت پازیب پہن کر  شوہر اور محارم کے علاوہ کسی غیر مرد  کے سامنے ظاہر کرے یا اس طرح استعمال کرے کہ ان کی جھنکار (آواز) غیر مرد تک پہنچے، تویہ  ناجائز و حرام اور گناہ ہے۔ عورت کےلئے اپنے مواضعِ زینت کسی اجنبی مرد کے سامنے ظاہر کرنا، یونہی  زیور کی آواز غیر تک پہنچانا حرام ہے۔ہاں  شوہر یا محارم کے سامنے پازیب پہن  سکتی ہے، لیکن جائز جگہ پازیب پہننے میں بھی ضروری ہے کہ ایسا پازیب نہ ہو جو  فاسقہ عورتوں سے مشابہت پیدا کردے۔

   اور رہا فقط گھنگرو پہننے کا معاملہ،  تو ایسے گھنگرو جو عام طور پر ناچ گانے والے ہی پہنتے ہوں اور وہ فاسقات کی  پہچان ہوں، تو ان سے مشابہت کی وجہ سے عورت کا ایسے گھنگرو پہننا بالکل ناجائز ہے، خواہ اپنے شوہر یا محارم کے سامنے ہی پہنے ۔

   عورت کا بجنے والا زیور پہن کر غیر محرم کے سامنے ظاہر کرنا یا اس طرح استعمال کرنا کہ آواز ان تک پہنچے، یہ ناجائز ہے۔ اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:﴿ولا یضربن بارجلھن لیعلم ما یخفین من زینتھن ترجمہ: اور زمین پر پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ جانا جائے ان کا چھپا ہوا سنگھار۔ ‘‘(پارہ 18، سورۃ النور، آیت 31)

   اس آیت کے تحت تفسیرِ صراط الجنان میں ہے:’’یعنی عورتیں چلنے پھرنے میں پاؤں اس قدر آہستہ رکھیں کہ ان کے زیور کی جھنکار نہ سنی جائے، اسی لئے چاہئے کہ عورتیں بجنے والے جھانجھن نہ پہنیں‘‘۔ (تفسیرِ صراط الجنان، جلد 6، صفحہ 623، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   اور ایسی عورت کے متعلق متعدد وعیدات ہیں۔ چنانچہ کنز العمال میں ہے:’’ ان الله تعالى يبغض صوت الخلخال كما يبغض الغناء ويعاقب صاحبه كما يعاقب الزامر ولا تلبس خلخالا ذات صوت الا ملعونة‘‘ ترجمہ: اللہ عزوجل پازیب کی آواز کو ایسے ہی ناپسند فرماتا ہے، جیسے گانے کی آواز کو ناپسند فرماتا ہے اور اس کے پہننے والی کا حشر ویسا ہی کرے گا جیسا کہ مزامیر والوں کا ہو گا اورآواز والی پازیب تو صرف ملعونہ عورت پہنتی ہے‘‘۔(کنز العمال، جلد 16، صفحہ 393، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت)

   تفسیراتِ احمدیہ میں ہے:’’قد قال علیہ السلام: ان اللہ لا یستجیب دعاء قوم یلبسون الخلخال نساءھم‘‘ ترجمہ: حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اس قوم کی دعا قبول نہیں فرماتا، جن کی عورتیں جھانجھن پہنتی ہوں۔(تفسیراتِ احمدیہ، صفحہ 565، مطبوعہ کراچی)

   گھنگرو پہننے کے متعلق سنن ابی داؤد میں ہے:’’ان مولاة لهم ذهبت بابنة الزبير الى عمر بن الخطاب وفي رجلها اجراس، فقطعها عمر، ثم قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ان مع كل جرس شيطانا ‘‘ ترجمہ: ایک لونڈی حضرت زبیررضی اللہ عنہ  کی بیٹی کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس لائی، اس کے پاؤں میں گھنگرو تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں کاٹ دیا اور فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر گھنگرو کے ساتھ شیطان  ہوتا ہے‘‘۔(سنن ابی داؤد، کتاب الخاتم، باب ما جاء فی الجلاجل، جلد 2، صفحہ 229، مطبوعہ لاھور )

   مسند امام احمد میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ الجرس مزمار الشيطان‘‘  ترجمہ:  گھنگرو شیطان کا باجا ہے۔(مسند امام احمد بن حنبل، جلد 14، صفحہ 338، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ)

    عورت کےلئے اجنبی کے سامنے اپنا سنگھار ظاہر کرنا حرام ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ ولا یبدین زینتهن الا لبعولتهِن او اٰبآىٕهِن او اٰبآء بعولتهِن او ابنآىٕهِن او ابنآء بعولتهِن او اخوانهِن او بنی اخوانهِن او بنی اخوٰتهِن ۔۔الخ ترجمہ کنز الایمان: اور اپنا سنگھار ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ یا شوہروں کے باپ یا اپنے بیٹے یا شوہروں کے بیٹے یا اپنے بھائی یا اپنے بھتیجے یا اپنے بھانجے۔۔الخ‘‘۔(پارہ 18، سورۃ النور، آیت 31)

   سننِ ابو داؤد میں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس خصلتیں نا پسند فرماتے تھے، ان میں سے ایک خصلت ’’التبرج بالزینۃ لغیر محلھا‘‘ یعنی اپنی زینت غیر محل پر ظاہر کرنا‘‘ بھی ہے۔(سنن ابو داؤد، کتاب الخاتم، جلد 4، صفحہ 89، مطبوعہ بیروت)

   اس کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’یعنی عورت کا اپنی زینت نا محرم مردوں پر ظاہر کرنا حرام ہے۔ ‘‘(مراۃ المناجیح، جلد 6، صفحہ 134، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

   امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’عورت اگر نامحرم کے سامنے اس طرح آئے کہ اُس کے بال، گلے اور گردن یا پیٹھ یا کلائی یاپنڈلی کا کوئی حصہ ظاہر ہو یا لباس ایسا باریک ہو کہ ان چیزوں سے کوئی حصہ اُس میں سے چمکے،تو یہ بالاجماع حرام اور ایسی وضع ولباس کی عادی عورتیں فاسقات ہیں اوران کے شوہر اگر اس پر راضی ہوں یا حسبِ مقدور بندوبست نہ کریں، تو دیوث ہیں۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج6، صفحہ  509تا510،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن،لاھور)

   آواز والا زیور عورت کب پہن سکتی ہے، اس کے متعلق فتاوی رضویہ میں ہے:’’بجنے والا زیورعورت کے لئے اس حالت میں جائز ہے کہ نامحرموں مثلاً خالہ ماموں چچا پھوپھی کے بیٹوں، جیٹھ، دیور، بہنوئی کے سامنے نہ آتی ہو، نہ اس کے زیور کی جھنکار نامحرم تک پہنچے۔ اللہ عزوجل فرماتاہے : ﴿ولایبدین زینتھن الا لبعولتھن۔۔ الاٰیۃ﴾ ترجمہ: ’’عورتیں اپنا سنگار شوہر یامحرم کے سوا کسی پر ظاہرنہ کریں‘‘۔اور فرماتاہے : ﴿ولا یضربن بارجلھن لیعلم مایخفین من زینتھن ترجمہ: عورتیں پاؤں دھمک کر نہ رکھے کہ ان کا چھپا ہوا سنگار ظاہر ہو۔ ‘‘

   فائدہ : یہ آیہ کریمہ جس طرح نامحرم کو گہنے کی آواز پہنچنا منع فرماتی ہے، یونہی جب آواز نہ پہنچے، اس کا پہننا عورتوں کے لئے جائز بتاتی ہے، کہ دھمک کر پاؤں رکھنے کو منع فرمایا، نہ کہ پہننے کو۔ ‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 22، صفحہ 128، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   فساق وفجار سے مشابہت کے متعلق اسی میں ہے: ’’ (لباس وغیرہ کوئی چیز پہننے میں دیگر امور کے ساتھ) یہ لحاظ رکھنا چاہئے کہ عورتوں یا بدوضع آوارہ فاسقوں کی مشابہت نہ پیدا ہو، مثلاً مرد کو چولی دامن میں گوٹا پٹھا، ٹانکنا مکروہ ہوگا، اگر چہ چارانگلی سے زیادہ نہ ہو کہ وضع خاص فساق بلکہ زنانوں کی ہے۔ علماء فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص فاسقانہ وضع کے کپڑے یا جوتے سلوائے (جیسے ہمارے زمانے میں نیچری وردی)، تودرزی  اور موچی کو ان کا سینا مکروہ ہے، کہ یہ معصیت پر اعانت ہے ،اس سے ثابت ہوا کہ فاسقانہ تراش کے کپڑے یا جوتے پہننا گناہ ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد22، صفحہ 137، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   ایک اور مقام پر فرمایا:’’جو بات کفار یا بد مذہباں اشرار یا فساق فجار کا شعار ہو، بغیر کسی حاجتِ صحیحہ شرعیہ کے برغبت نفس اس کا اختیار ممنوع و ناجائز و گناہ ہے، اگرچہ وہ ایک ہی چیز ہو کہ اس سے اس وجہ خاص میں ضررور ان سے تشبہ ہو گا، اسی قدر منع کو کافی ہے، اگرچہ دیگر وجوہ سے تشبہ نہ ہو۔ ‘‘(فتاوی رضویہ، جلد24، صفحہ 535 تا 536، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم