Aurat Ka Khubsurti Ke Liye Apne Kuch Baal Peshani Par Dalna Kaisa ?

عورت کا خوبصورتی کے لیے اپنے کچھ بال پیشانی پر ڈالنا کیسا ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:34

تاریخ اجراء: 06ذوالحجۃ الحرام1442ھ/17جولائی 2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ عورت کا خوبصورتی کے لیے اپنے کچھ بال پیشانی پر ڈالنا کیسا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عورت کا خوبصورتی کے لیے اپنے کچھ بال ،لَٹ وغیرہ کی صورت میں پیشانی پر ڈالنا ،اگر تو کندھوں سے اوپر بالوں کو کاٹ کر لَٹ بنائی گئی  ہے،توناجائز وگناہ ہے،کیونکہ عورتوں کے لیے کندھوں سے اوپر بالوں کوکاٹنامردوں سے مشابہت کی وجہ سے گناہ ہے اوراگر کاٹے بغیر چہرے پر کچھ  بال لَٹ کی صورت میں ڈالے جائیں ،تو  اگر غیر محرم کے سامنے ہو،تو  ناجائز و گناہ ہے کہ اس میں  بے پردگی ہے اور غیر محرم کے سامنے بےپردگی کرنا حرام ہےاوراگر صرف محرم کے سامنے  ہواور فتنے کا اندیشہ نہ ہو،تو جائز اورشوہر کے لیے فی نفسہ جائز ہے اور حکمِ شرعی پر عمل کی نیت سے  ہو،تو کارِثواب بھی ہے۔

   مردانہ مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں کے متعلق حدیثِ پاک میں ہے:عن ابن عباس رضی اللہ عنهما قال: لعن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم المتشبهين من الرجال بالنساء، والمتشبهات من النساء بالرجال ترجمہ:حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مردوں سے مشابہت اختیارکرنے والی عورتوں اور عورتوں سے مشابہت اختیار کرنے والے مردوں پر لعنت فرمائی ہے۔(صحیح بخاری ،کتاب اللباس ،باب المتشبھون بالنساء ،جلد2صفحہ 874،مطبوعہ کراچی)

   اور درمختار اور عقود الدریہ میں ہے ،واللفظ للاوّل:فیہ (ای المجتبٰی) قطعت شعر راسھا اثمت ولعنت فی البزازیۃ ولو باذن الزوج ، لانہ لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق ولذا یحرم علی الرجل قطع لحیتہ والمعنی الموثر التشبہ بالرجال  ترجمہ: مجتبٰی  شرح قدوری میں ہے عورت اپنے سر کے بال کاٹے تو  گنہگاروملعونہ ہوگی ، بزازیہ میں فرمایا کہ اگر چہ شوہر کی اجازت سے ایسا کرے، اس لئے کہ خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں ،اسی لئے مرد پر داڑھی کا ٹنا حرام ہے اور عورت کے گنہگار ہونے کی علت اور وجہ یہ ہے کہ اس میں مردوں کے ساتھ مشابہت پائی جاتی ہے۔(درمختار ، کتاب الحظروالاباحۃ،      فصل فی البیع،جلد 9،صفحہ 670،672،مطبوعہ کوئٹہ )

   شیخ الاسلام والمسلمین اعلیٰ حضرت  الشاہ امام احمد رضا خان  رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات: 1340 ھ) لکھتے ہیں:’’عورت کو اپنے سرکے بال کترنا حرام ہے اور کترے، توملعونہ کہ مردوں سے تشبّہ ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ ، جلد24، صفحہ 543، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)    

      عورت کے زینت ظاہر کرنےکے تفصیلی احکام قرآن مجید میں یوں بیان کیے گئے ہیں: ﴿وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآىٕهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآىٕهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اَخَوٰتِهِنَّ ترجمۂ کنز العرفان:اور اپنی زینت نہ دکھائیں مگر جتنا (بدن کاحصہ) خود ہی ظاہر ہے اور وہ اپنے دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ یا شوہروں کے باپ یا اپنے بیٹوں یا شوہروں کے بیٹے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں(پر)۔(پارہ 18،سورۃالنور ، ،آیۃ31)

   اوپر بیان کردہ آیتِ مبارکہ کے تحت  علامہ ابو البرکات عبداللہ بن احمد نسفی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات: 710ھ) لکھتے ہیں :الزينة ما تزينت به المرأة من حلي أو كحل أو خضاب ، والمعنى ولا يظهرن مواضع الزينة إذ إظهار عين الزينة وهي الحلي ونحوها مباح فالمراد بها مواضعها ، ومواضعها الرأس والأذن والعنق والصدر والعضدان والذراع والساق إلا ما جرت العادة والجبلة على ظهوره وهو الوجه والكفان والقدمان ، ففي سترها حرج بينترجمہ :زینت سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کے ذریعے عورت سجتی سنورتی ہے جیسے زیور،سرمہ اور مہندی وغیرہ اور چونکہ محض زینت کے سامان کو دکھانا مباح ہے اس لئے آیت کا معنی یہ ہے کہ مسلمان عورتیں اپنے بدن کے ان اعضا کو ظاہر نہ کریں جہاں زینت کرتی ہیں ،جیسے سر، کان، گردن، سینہ، بازو، کہنیاں اور پنڈلیاں، البتہ بد ن کے وہ اعضا جوعام طور پر ظاہر ہوتے ہیں جیسے چہرہ،دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں،انہیں چھپانے میں چو نکہ مشقت واضح ہے  ،اس لئے ان اعضا کو چھپانا ضروری نہیں۔(لیکن فی زمانہ چہرہ چھپایا جائے گا)۔

(تفسیر مدارک التنزیل ،تحت ھذہ الآیۃ ،جلد2 ،صفحہ 500 ،مطبوعہ لاهور )

   عورت کے چہرے اور ہاتھ ،پاؤں کی ہتھیلیوں کے علاوہ  بالوں سمیت پورا جسم ستر ہے ،جیساکہ  حدیثِ پاک میں ہے:عن عائشة رضي اللہ عنها، أن أسماء بنت أبي بكر، دخلت على رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم وعليها ثياب رقاق، فأعرض عنها رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم، وقال:"يا أسماء، إن المرأة إذا بلغت المحيض لم تصلح أن يرى منها إلا هذا وهذا"وأشار إلى وجهه وكفيهترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں ، تو ان پر باریک کپڑا تھا (یعنی ایسا کپڑا تھا جس سے بال وغیرہ  نظر  آرہے تھے) ،تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے اعراض فرما لیا اور ارشاد فرمایا :اے اسماء !بے شک عورت جب حیض کو پہنچ جائے (یعنی بالغ ہو جائے)،تو ہرگز  درست نہیں ہے کہ اس عورت  کااِس  حصے اور اِس حصے کے علاوہ کچھ دکھائی دے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چہرے اور ہتھیلیوں کی طرف اشارہ فرمایا۔(سنن ابو داؤد ،کتاب اللباس ،باب فیما تبدی المراۃ  من زینتھا ،جلد2 ، صفحہ 212 ،مطبوعہ لاھور)

   عورت کے بال ستر میں شامل ہونے کے متعلق تنویرالابصار مع درمختار میں ہے: ( وللحرۃ جمیع بدنھا)حتی شعرھا النازل فی الاصح(خلا الوجہ والکفین والقدمین ) (وتمنع)المرأۃ الشابۃ(من کشف الوجہ بین رجال لخوف الفتنۃ)ترجمہ:چہرہ ،دونوں ہتھیلیوں اور دونوں پاؤں کے علاوہ،آزاد عورت کا تمام بدن، حتی کہ لٹکے ہوئے بال بھی سترِمیں شامل ہیں اور( فی زمانہ) فتنے کے خوف  کی وجہ سے جوان عورت کو مردوں کے سامنے اپنا چہرہ ظاہر کرنے سے بھی منع کیا جائے گا۔(درمختار مع ردالمحتار ، باب شروط الصلاة، جلد2،مطلب في ستر العورة،  صفحہ95، مطبوعہ  کوئٹہ)

    عورت کا اپنے محرم کے سامنے بال وغیرہ ستر کے اعضا کو ظاہر کرنے کی شرط بیان کرتے ہوئے  علامہ  علاؤالدین حصکفی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات:1088ھ/1677ء) لکھتےہیں:إن أمن شهوته وشهوتها أيضا وإلا لاترجمہ:اگر مردو عورت کو اپنی شہوت سے امن ہو، تو دیکھنا جائز ہے، ورنہ ہرگز جائز نہیں۔(درمختار مع ردالمحتار ، کتاب الحظر والاباحۃ، فصل فی النظر ، جلد9،  صفحہ605، مطبوعہ  کوئٹہ)

   شیخ الاسلام والمسلمین اعلیٰ حضرت الشاہ  امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ  (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:عورت اگر نامحرم کے سامنے اس طرح آئے کہ اُس کے بال، گلے اور گردن یا پیٹھ یا کلائی یاپنڈلی کا کوئی حصہ ظاہر ہو یا لباس ایسا باریک ہو کہ ان چیزوں سے کوئی حصہ اُس میں سے چمکے،تو یہ بالاجماع حرام اور ایسی وضع ولباس کی عادی عورتیں فاسقات ہیں اوران کے شوہر اگر اس پر راضی ہوں یا حسبِ مقدور بندوبست نہ کریں، تو دیوث ہیں۔‘‘(فتاویٰ رضویہ، جلد6،صفحہ509،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاهور)

   عورت کا شوہر کے لیے زینت کرنے کی فضیلت کے متعلق حدیثِ پاک میں ہے:عن أبي هريرة قال: قيل: يا رسول اللہ، أي النساء خير؟ قال: التي تسره إذا نظر، وتطيعه إذا أمر، ولا تخالفه فيما يكره في نفسها وماله ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کی گئی، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! عورتوں میں سے بہتر کون  ہے؟ ارشاد فرمایا : وہ کہ شوہر اس کو دیکھے  ،تو وہ( اپنے بناؤ سنگھار اور اپنی اداؤں سے) اس کا دل خوش کردے اور اگر شوہر کسی بات کا حکم دے ،تو اس کی اطاعت کرےا ور اپنی ذات اور شوہر کے مال میں جو چیزیں اس کو ناپسند ہوں اس کی مخالفت نہ  کرے۔(مسند احمد ،ابو ھریرۃ ،جلد 12 ،صفحہ 383 ،مطبوعہ  مؤسسۃ الرسالۃ )

   امامِ اہلسنّت اعلیٰ حضرت الشاہ  امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں:عورت کا اپنے شوہر کے لئے گَہنا(زیور) پہننا، بناؤ سنگارکرنا ،باعثِ اجر ِعظیم اور اس کے حق میں نمازِ نفل سے افضل ہے۔(فتاویٰ رضویہ، جلد22،صفحہ126، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم