Aurat Ka Balon Ko Barabar Karne Ke Liye Sirf Peshani Ke Baal Katna

عورت کا بالوں کو برابر کرنے کے لیےصرف  پیشانی کےبال کاٹنا

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:33

تاریخ اجراء: 06ذیقعدۃالحرام 1442ھ/17 جولائی 2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ عورت کا سر کےبالوں کو برابر کرنے کے لیےصرف  پیشانی  کی جانب سےبال کاٹنا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عورت کا بالوں کو برابر کرنے کے لیے پیشانی کی جانب سے اس طرح  بال کاٹنا کہ وہ حقیقی لمبائی میں  کندھوں سے نیچے تک نہ رہیں، یہ  جائز نہیں ہے  ،کیونکہ عورت کے لیے کندھوں تک بال کاٹنا، چاہے پیشانی کی طرف  سے ہویا پیچھے سے ہو ،حرام ہے کہ اس میں مردوں کے ساتھ مشابہت ہے اور مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے  لعنت فرمائی ہے ۔ عورت نے  اگر بال کاٹنے ہی ہوں تو کندھوں سے نیچے صرف بالوں کی نوکیں وغیرہ سیٹ کرلے۔

   مردانہ مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں کے متعلق حدیثِ پاک میں ہے:عن ابن عباس رضی اللہ عنهما قال: لعن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم المتشبهين من الرجال بالنساء، والمتشبهات من النساء بالرجال ترجمہ:حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مردوں سے مشابہت اختیارکرنے والی عورتوں اور عورتوں سے مشابہت اختیار کرنے والے مردوں پر لعنت فرمائی ہے۔(صحیح بخاری ،کتاب اللباس ،باب المتشبھون بالنساء ،جلد2صفحہ 874،مطبوعہ  کراچی)

   اوپر بیان کردہ حدیثِ پاک کی شرح میں  علامہ ابو الحسن ابنِ بطال رحمۃ اللہ علیہ(سالِ وفات:449 ھ) لکھتے ہیں:ولا يجوز للنساء التشبه بالرجال فيما كان ذلك للرجال خاصة ترجمہ:عورتوں کے لیے مردوں کے ساتھ  ہر اس کام میں مشابہت اختیار کرنا ، ناجائز ہے ، جو مردوں کے  لیے خاص ہے۔ (شرح  صحیح بخاری لابنِ بطال  ،کتاب اللباس ،جلد 9 ،صفحہ140 ،مطبوعہ الریاض)

   سیّدی عارف باللہ علامہ عبدالغنی نابلسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:الحکمۃ فی تحریم تشبہ الرجل بالمرأۃ وتشبہ المرأۃ بالرجل انھما مغیرات لخلق ﷲ ترجمہ:مردوعورت کی باہم مشابہت حرام ہونے میں حکمت یہ ہے کہ وہ دونوں اللہ پاک کی بنائی ہوئی  چیز کو بدلتے ہیں۔ (الحدیقۃ الندیہ  ،جلد 2،صفحہ 558 ،مطبوعہ      مکتبہ نوریہ رضویہ ، فیصل آباد    )

   اور مردانہ  طرز پر بال کٹوانے والی عورتوں کے متعلق درمختار اور عقود الدریہ میں ہے ،واللفظ للاوّل: فیہ (ای المجتبٰی) قطعت شعر راسھا اثمت ولعنت فی البزازیۃ ولو باذن الزوج ، لانہ لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق ولذا یحرم علی الرجل قطع لحیتہ والمعنی الموثر التشبہ بالرجال  ترجمہ: مجتبٰی  شرح قدوری میں ہے عورت اپنے سر کے بال کاٹے تو  گنہگاروملعونہ ہوگی ، بزازیہ میں فرمایا کہ اگر چہ شوہر کی اجازت سے ایسا کرے، اس لئے کہ خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں ،اسی لئے مرد پر داڑھی کا ٹنا حرام ہے اور عورت کے گنہگار ہونے کی علت اور وجہ یہ ہے کہ اس میں مردوں کے ساتھ مشابہت پائی جاتی ہے۔(درمختار ، کتاب الحظروالاباحۃ،      فصل فی البیع،جلد 9،صفحہ 670،672،مطبوعہ کوئٹہ )

   شیخ الاسلام والمسلمین اعلیٰ حضرت  الشاہ امام احمد رضا خان  رحمۃ اللہ علیہ  (سالِ وفات: 1340 ھ)  لکھتے ہیں: عورت کو اپنے سرکے بال کترنا حرام ہے اور کترے، توملعونہ کہ مردوں سے تشبّہ ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ ، جلد24، صفحہ 543، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   مزید ایک مقام پر لکھتے ہیں:”عورت کو موئے سر ،مرد کو داڑھی کا قطع کرنا حرام ہے کہ اس میں ایک کادوسرے سے تشبہ ہے۔“(فتاوی رضویہ ، جلد22، صفحہ 665، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم