Apne Liye Beemari Ki Dua Karna Kaisa?

اپنے لیے بیماری کی دعا کرنا کیسا؟

مجیب:مفتی ابوالحسن محمد   ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Lar-11950

تاریخ اجراء:24رجب المرجب  1444ھ/16 فروری 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ  احادیث ِ مبارکہ میں بیماری کے متعدد  فضائل موجود ہیں،  جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ  بیماری  گناہوں کے کفارے کا سبب بنتی ہے ، تو یہ فضائل سننے کے بعد  اگر   کوئی اس قصد و ارادے سے اپنے لیے جنون  یا برص کی   بیماری کی   دعا  مانگے کہ  یہ بیماری دنیا ہی میں  میرے گناہوں  کا کفارہ ہو جائےاور آخرت میں مجھ سے کوئی مواخذہ نہ ہو، تو  ایسی دعا  کرنے کا کیا حکم ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   دعا اللہ تعالی  کا قرب ،فضل  و انعام  اور بخشش و مغفرت حاصل کرنے کا  نہایت آسان ذریعہ ہے  لیکن دیگر عبادات کی طرح    دعا کے متعلق بھی بقدرِ  کفایت علم سیکھنا ضروری ہے ،تاکہ دعا کرنے والے کو    پتاہو کہ اللہ کریم  کی بارگاہ سے کیا مانگنا ہے اور کس طرح مانگنا ہے؟ بسااوقات  لا علمی کے باعث  اپنے ہی حق میں ممنوع وناجائز چیزوں کی دُعا مانگی جارہی ہوتی ہے ،حالانکہ  شرعی طور پر ایسی دعا کرنے کی اجازت نہیں ہوتی    اور اپنے لیے   کسی سخت بیماری کی دعا کرنا  بھی  شریعت میں منع ہے  کہ بیماری اگرچہ  گناہوں کا کفارہ  اور صبر کرنے کی صورت میں باعث ِ اجر و ثواب  ہے ،لیکن  سخت امراض  مثلاً: جنون و برص  یا  اس کی مثل دیگر بیماریوں کی دعا کرنا ،ممنوع  ہے  کہ ممکن ہےایسی آزمائش  لاحق ہونے کی صورت میں اس کی شدت  نا قابلِ برداشت ہو جائے  اور   تکلیف کی شدت کے باعث   اللہ تعالی کی ذات کے  حوالے سے ایسا کوئی جملہ منہ سے نکل جائے،جو ایمان کے لیے خطرے کاسبب بن جائے۔ لہذا دریافت کردہ صورت میں ایسی دعا کرنا، ممنوع ہے اور ایسی دعا ہر گز نہیں کرنی چاہیے،بلکہ اللہ تعالی سے عافیت  ہی کا سوال کرنا چاہیے کہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہمیں اللہ تعالی  سے عافیت کی دعا کرنے کی ترغیب دی ہے۔

   صحیح مسلم   میں ہے:عن أنس، أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم، عاد رجلا من المسلمين قد خفت فصار مثل الفرخ، فقال له رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: «هل كنت تدعو بشيء أو تسأله إياه؟» قال: نعم، كنت أقول: اللهم ما كنت معاقبي به في الآخرة، فعجله لي في الدنيا، فقال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: " سبحان اللہ لا تطيقه - أو لا تستطيعه - أفلا قلت: اللهم آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة، وقنا عذاب النار " قال: فدعا اللہ له، فشفاه ترجمہ:حضرت ا نس رضی اللہ عنہ سے   روایت ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک مرتبہ ایسے شخص کی عیادت فرمائی جو بیماری سے چوزے کی طرح ہوگیا تھا، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: کیا تم کوئی خاص دعا یا اللہ سے سوال کیا کرتے تھے؟ اس نے عرض کیا ہاں! میں کہا کرتا تھااے اللہ! جو سزا تو مجھے آخرت میں دینے والا ہے،وہ دنیا میں ہی دے دے (تاکہ آخرت میں محفوظ رہوں ) یہ سن کر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: سبحان اللہ! تجھ میں اتنی طاقت کہاں؟ یا فرمایا تجھ میں اتنی استطاعت کہاں؟ تو نے اس طرح دعاکیوں نہ کی کہ اے اللہ! ہمیں دنیا و آخرت دونوں جگہ کی بھلائی عطا فرما اور دوزخ کے عذاب سے ہمیں بچالے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ سلم نے اس کے لیے دعا فرمائی، تو اللہ تعالی نے اسے شفا عطا فرمائی۔(الصحیح لمسلم  ،جلد4،صفحہ2068، دار إحياء التراث العربي،بيروت)

   اس حدیث ِ مبارکہ کے تحت ابو الفضل قاضی عیاض بن موسی  مالکی علیہ ا لرحمۃ(المتوفی:544ھ) اکمال المعلم بفوائد مسلم  میں فرماتے ہیں: وفيه كراهة تمنى البلاء وإن كان على الوجه الذى فعله هذا، فإنه قد لا يطيقه فيحمله شدة الضرر على السخط والتندم والشكى من ربه ‘‘ترجمہ :  اس حدیث  پاک سے معلوم ہوا کہ آزمائش  کی تمنا کرنا، مکروہ ہے،اگرچہ اس طریقے پر ہو جس طرح سائل نے تمنا کی ۔ کیونکہ  ممکن ہے آزمائش کو برداشت کرنے کی  اس میں طاقت  نہ ہو،  تو  تکلیف کی شدت  اسے اللہ تباک و تعالی  کی ذات  پر شکوہ و شکایت اور  ناراضگی پر ابھار دے ۔(اکمال المعلم بفوائد مسلم ، جلد8،صفحہ 186 ، دار الوفاء للطباعة والنشر والتوزيع، مصر)

   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے  اللہ تعالی سے عافیت کی دعا کرنے کی ترغیب دلائی ،  اس حوالے سے سنن ترمذی میں ہے :سمع النبي صلى اللہ عليه وسلم رجلا وهو يقول:’’اللهم إني أسألك الصبر، فقال: «سألت اللہ البلاء فسله العافية ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو یہ کہتے سنا :’’الٰہی میں تجھ سے صبر مانگتا ہوں، تو فرمایا کہ تو آفت مانگ رہا ہے، اﷲ سے عافیت مانگ۔( سنن  ترمذی ، جلد5، صفحہ 541، شركة مكتبة ومطبعة مصطفى)

   مشہور فقیہ و محدث ملا علی قاری الحنفی علیہ الرحمۃ ( المتو فی 1014ھ)  مذکورہ حدیث کے تحت فرماتے ہیں :’’ وكل أحد لا يقدر أن يصبر على البلاء، ومحل هذا إنما هو قبل وقوع البلاء وأما بعده فلا منع من سؤال الصبر بل مستحبترجمہ:  ہر شخص آزمائش پر صبر کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ، اس حدیث مبارکہ  کا محل آزمائش آنے سے پہلے صبر  کی دعا کرنا ہے۔ بہرحال آزمائش آنے کے بعد  صبر کے سوال سے منع نہیں کیا گیا،  بلکہ   اس وقت صبر کی دعا کرنا مستحب ہے۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح ، جلد4، صفحہ 1689 ، دار الفکر، بیروت )

   مزید ایک اور مقام پر اس حوالے سے سنن ترمذي  میں ہے :”عن أنس بن مالك، أن رجلا جاء إلى النبي صلى اللہ عليه وسلم فقال: يا رسول اللہ أي الدعاء أفضل؟ قال: سل ربك العافية والمعافاة في الدنيا والآخرة، ثم أتاه في اليوم الثاني فقال: يارسول اللہ أي الدعاء أفضل؟ فقال له مثل ذلك، ثم أتاه في اليوم الثالث فقال له مثل ذلك. قال: فإذا أعطيت العافية في الدنيا وأعطيتها في الآخرة فقد أفلحتترجمہ: حضرت انس  بن مالک رضی اللہ  عنہ سے روایت ہے  کہ ایک شخص نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی  ،یار سول اللہ کون سی دعا افضل ہے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے  فرمایا کہ اللہ تعالی سے دنیا و آخرت میں عافیت کا سوال کرو ،  دوسرے دن پھر وہ شخص آیا  اور عرض کی  یا رسول اللہ  کون سی دعا افضل ہے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے  پھر وہی جواب دیا۔ تیسرے دن پھر  اس شخص نے حاضر ہو کر اسی طرح پوچھا،  تو  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی جواب دیا  اور مزید فرمایا کہ اگر دنیا و آخرت میں تجھے عافیت مل گئی، تو  کامیاب ہو گیا۔(سنن ترمذي، جلد5،صفحه415، دار الغرب الإسلامي،بيروت)

   امام عبد الوھاب شعرانی علیہ الرحمۃفرماتے ہیں :” و قد كان الامام الشافعی مبتلی بمرض البواسیر  فکانت  تنضح علیہ دما لیلا و نھارا حتی کان یجلس للحدیث  والطشت تحتہ یقطر فیہ الدم  فقال یوما : اللھم ان کان  فی ھذا رضاک  فزدنی منہ  فسمعہ شیخہ الامام مسلم بن خالد زنجی رحمہ اللہ  فزجرہ وقال لہ: مہ یا محمد، سل اللہ العافیۃ  فانا و انت لسنا من رجال البلاءترجمہ: امام شافعی علیہ الرحمۃ کو بواسیر کا مرض  لاحق تھا  ،جس کی وجہ سے دن و رات  ان کے جسم  سے خون کے قطرے ٹپکتے رہتے تھے ،یہاں  تک کہ جب  وہ حدیث بیان کرنے کے لیے بیٹھتے تھے  تو(مرض کی شدت کے باعث  ) ان کے نیچے ایک برتن ہوتا تھا جس میں خون کے قطرے ٹپکتے رہتے تھے ۔ تو ایک دن انہوں  نے یوں دُعا کی: یا اللہ  عزوجل اگر تیری رضا اسی میں ہے،تو اس بیماری میں اضافہ کر دے۔ یہ دعا سن کر آپ  علیہ الرحمۃ کے استاذ حضرت امام مسلم بن خالد زنجی  علیہ الرحمۃ نے فرمایا:اے محمد! رُک جاؤ،اللہ پاک سے صحت کا سوال کرو ،میں اورتم آزمائش (برداشت کرنے )والے لوگوں میں سے نہیں ہیں۔(تنبیہ المغترین،صفحہ 51،  52 ، المکتبۃ التوفیقیہ، قاھرہ )

   جن باتوں کی دعا کرنا،  ممنوع ہے ان  کو بیان کرتے ہوئے  رئیس المتکلمین  مولانا نقی علی خان علیہ الرحمۃ" احسن الوعاء لآداب الدعا"میں فرماتے ہیں:” جسم کے حق میں کبھی کبھی ہلکا بخار، زکام، دردِ سر اور ان کے مثل ہلکے امراض بَلا نہیں ،نعمت ہیں، بلکہ ان کا نہ ہونا بَلا ہے، مردانِ خدا پر اگر چالیس دن گزریں کہ کوئی عِلّت وقِلّت نہ پہنچے (یعنی بیماری وپریشانی نہ آئے )تو اِستغفار واِنابت فرماتے ہیں (یعنی توبہ کرتے اوررجوع لاتے ہیں)کہ مَبادا باگ ڈھیلی نہ کردی گئی ہو(یعنی خدانخواستہ توجہ نہ ہٹالی گئی ہو)۔ ہاں!سخت امراض مثل جُنون وجُذام وبَرَص وکُوری (اندھا پن)وطاعون یا سانپ کا کاٹنا، جلنا ،ڈوبنا، دبنا، گِرنا وأمثال ذلک (اور اسی کی مثل دوسری بیماریاں)اگرچہ مسلمان کے کفارہ  ذُنوب(یعنی گناہوں کا کفارہ ) وباعثِ اجر وشہادت ورحمت ہیں ضرور بَلااور﴿لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖمیں داخل ہیں ۔( احسن الوعاء لآداب الدعا، جلد173، 174، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم