Ajnabi Mard Aur Aurat Ka Musafa Kaisa ?

اجنبی مرد و عورت کا مصافحہ کرنا کیسا؟

مجیب: مفتی محمدقاسم عطاری

فتوی نمبر:8117- FSD

تاریخ اجراء:       11 ربیع الثانی1444ھ/07نومبر 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ ہم مسلمان ہیں،  مغربی ممالک میں رہتے ہیں،وہاں مختلف  اداروں، دفاتر ، تعلیمی اداروں اورانسٹیٹیوٹس وغیرہا میں بسااوقات مسلمان مرد  یا عورتوں کو مختلف مواقع پر اجنبی مردوں یا عورتوں سے مصافحہ کرناپڑتاہے،اب اگروہاں مصافحہ کے لیے ہاتھ  نہ بڑھایا جائے،  تو دوسرے فردکی طرف سے ملازمت وغیرہ کی صورت میں ضرر یا نقصان وغیرہ پہنچنے کااندیشہ رہتاہے۔کیا شرعاً  مسلمانوں میں اِس صورت میں مصافحہ کرنے کی اجازت ہو گی یانہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عورت کا نامحرم مرد یا مرد کا نامحرم عورت سے ہاتھ ملانا، ناجائزو گناہ، حرام اور تعلیماتِ دینیہ کے صریح خلاف ہے۔  یاد رکھیے! دینِ اسلام  ہر اُس راستے کو بند کرتا ہے،  جو بے حیائی ، بے رَاہ رَوِی اور فتنے کا دروازہ کھولے، لہذا صرف اَدنیٰ اندیشے اور احتمال کےسبب کہ اگر ہاتھ نہ ملایا، تو جاب(Job) کے حوالے سے نقصان ہو سکتا ہے،یہ ہرگز ہاتھ ملانے کو جائز نہیں کرتا۔ آپ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیے اور اپنے لاشعور کو اِس خدائی وعدے کا یقین دلائیے کہ جو اللہ سے ڈرے، احکاماتِ شرعیہ کی پابندی کرے اور خدا کی مقرر کردہ  حدود کی رعایت رکھے ،تو اللہ تعالیٰ ضرور اُس کے لیے راہیں کھولتا اور معاشی اعتبار سے اُس پر وہاں سے رزق کے  دروازے کھولتا ہے کہ جہاں اُس کے وہم اور خیال کی رسائی  تک نہیں ہوتی، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا(۲) وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا﴾ترجمہ کنزالعرفان:’’اور جو اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لیے نکلنے کا راستہ بنادے گا اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان بھی نہ ہو اور جو اللہ پر بھروسہ کرے ،تو وہ اسے کافی ہے، بیشک اللہ اپنا کام پورا کرنے والا ہے، بیشک اللہ نے ہر چیز کے لیے  ایک اندازہ مقرر کررکھا ہے۔‘‘(پارہ28، سورۃالطلاق،آیت2،3)

   آپ حکمِ شرعی کی پاس دارِی کیجیے، نامحرم سے مصافحہ کرنے سے مکمل اجتناب کیجیے اور جس کام کا شریعت آپ سے تقاضا کر رہی ہے، اُسے ہی سرانجام دیجیےکہ یہ صبر ہے اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، چنانچہ فرمایا:﴿ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَترجمہ کنزالعرفان:’’بیشک اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔‘‘(پارہ2، البقرة،آیت153)اور شرعی احکامات پر کاربندی بھی صبر ہی  کی ایک نوع ہے، چنانچہ امام  راغب اصفہانی  (سالِ وفات:502ھ/1108ء) لکھتے ہیں:’’الصبر حبس النفس علی ما یقتضیہ العقل والشرع‘‘ ترجمہ:صبر کا معنی ہے کہ نفس کو ا س چیز پر روکنا کہ  جس پر رکنے کا عقل اور شریعت تقاضا کر رہی ہو ۔(المفرداتُ فی غریب القرآن،جلد2، صفحہ 359،مطبوعہ مکتبۃ نزار مصطفی الباز)

   لہذا شرعی حکم کی پابندی کرنا اور نامحرم سے مصافحہ کرنے سے باز رہنا، صبر ہے اور اوپر معلوم ہو چکا کہ خدا کی تائید و نصرت صبر کرنےوالوں کے ساتھ ہے، تو جب قادِر مطلق کی مدد  حاصل ہے ،تو پھر تنگیِ رزق کا وہم نکال دیجیے۔ پریشانی یا ضرر کی صورت میں اللہ تعالیٰ اپنی مشیَّت و حکمت و علم  کے مطابق   اسباب پیدا فرمائے گا، کہ رزَّاقِ حقیقی وہی ہے اور اُسی کی بارگاہِ رزاقیت  سے جملہ مخلوقات تک رزق کی ترسیل ہے۔

   حکیم و ہادی خدا نے بدکاری بلکہ  اُس  کی طرف لے جانے والے کاموں سے بھی دور رہنے کا حکم ارشاد فرمایا، چنانچہ فرمایا گیا:﴿ وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً  وَسَآءَ سَبِیۡلًاترجمہ کنزالعرفان:اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بیشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے۔(پارہ15،سورۃ  الاسراء،آیت32)

   اِس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے  امام ابو البرکات عبد اللہ بن احمد نَسَفِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:710ھ/1310ء) لکھتے ہیں:’’نهي عن دواعي الزنا كالمس والقبلة ونحوهما ‘‘ ترجمہ:اِس آیت مبارکہ میں زِنا کی طرف لے جانے والے اُمور مثلاً چھونے ، بوسہ لینے اور اِن جیسے دیگر  کاموں سے منع کیا گیا ہے۔ (تفسیر نسفی، جلد2، صفحہ255، مطبوعہ  دارالکلم الطیب، بیروت)

   نامحرم سے ہاتھ ملانے اور چھونے کے متعلق نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:’’ لأن ‌يطعن ‌في ‌رأس ‌أحدكم بمخيط من حديد خير له من أن يمس امرأة لا تحل له‘‘ ترجمہ:تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کا سُوا  (بڑی سوئی) چُبھو دیا   جائے، یہ اِس سے زیادہ بہتر ہے کہ وہ نا محرم خاتون کو چھوئے۔(المعجم الکبیر للطبرانی، جلد20، صفحہ 211، مطبوعہ قاھرہ)

   جمع الجوامع میں ہے:’’ لأن يكون في رأس رجل مشط من حديد حتى يبلغ العظم خير من أن تمسه امرأة ليست له بمحرم‘‘ ترجمہ:کسی شخص کے سر میں لوہے کی کنگھی پھیری جائے، حتی کہ وہ اُس کا  گوشت چیرتی ہوئی ہڈی تک پہنچ جائے، یہ اِس سے بہتر ہے کہ کوئی ایسی عورت اُس مرد کو چھوئے جو اُس کی محرم نہ ہو۔ (جمع الجوامع، جلد6، صفحہ 546، مطبوعہ دار السعادۃ، الازھر الشریف)

   حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عورتوں سے جب بھی بیعت لی، کبھی بھی اُن کا ہاتھ نہ تھاما، چنانچہ حضرت عائشہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا بتاتی ہیں:’’واللہ ما مست يده يد امرأة قط في المبايعة، وما بايعهن إلا بقولہ‘‘ ترجمہ:اللہ کی قسم! دورانِ بیعت نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہاتھ نے کبھی بھی کسی  عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا۔ عورتیں ہمیشہ زبان سے ہی بیعت کرتیں۔(صحیح البخاری، جلد3،  صفحہ 189، مطبوعہ دار طوق النجاۃ، بیروت)

   ايك موقع  پر صحابیات نے بیعت کے لیے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اپنا ہاتھ آگے بڑھانے کی درخواست کی ،تو نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے منع فرمایا،چنانچہ نسائی شریف میں ہے:’’هلم نبايعك يا رسول اللہ ، فقال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم:إني ‌لا ‌أصافح النساء ‘‘ ترجمہ:اے اللہ کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! اپنا ہاتھ آگے بڑھائیں تا کہ ہم آپ کی بیعت کریں، تو نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا۔(سنن النسائی، جلد7، صفحہ 149،مطبوعہ مکتب المطبوعات الاسلامیۃ، حلب)

   جوان لڑکی سے مصافحہ کے متعلق علامہ زَیْلَعی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:743ھ/1342ء) لکھتےہیں:’’قال  عليه الصلاة والسلام «من مس كف امرأة ليس منها بسبيل وضع على كفه جمر يوم القيامة» وهذا إذا كانت ‌شابة تشتهى، وأما إذا كانت عجوزا لا تشتهى فلا بأس بمصافحتها، ومس يدها لانعدام خوف الفتنة‘‘ ترجمہ:نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:جس نے کسی عورت کی ہتھیلی کو چھوا، حالانکہ اُس کے لیے اُس عورت کی ہتھیلی چھونے کا کوئی جواز نہ تھا، تو قیامت کے دن اُس کی ہتھیلی پر انگارہ رکھا جائے گا۔(امام زیلعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ) یہ وعید اُس صورت میں ہے کہ جب لڑکی مشتہاۃ ہو، البتہ اگر بوڑھی ہو کہ جس سے شہوت کا اندیشہ نہ ہو ،تو اُس سے مصافحہ کرنے  اور اُس کے ہاتھ کو چھونے میں کوئی مضائقہ نہیں، کیونکہ بوڑھی  عورت کی صورت میں فتنے کا خوف معدوم ہوتا ہے۔(تبیین الحقائق، جلد7،کتاب الكراهية، صفحہ 40،مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:’’مصافحة الرجل للمرأة الأجنبية الشابة فقد ذهب الحنفية والمالكية والشافعية والحنابلة في الرواية المختارة  إلى تحريمها، وقيد الحنفية التحريم بأن تكون الشابة مشتهاة‘‘ ترجمہ:مرد كا جوان عورت سے مصافحہ کرنا ۔ اِس مسئلہ میں احناف، مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے مختار قول کے مطابق یہ حکم ہے کہ یہ حرام ہے۔ احناف اِس مسئلہ میں حرمت کا قول اُس وقت کرتے ہیں کہ جب لڑکی  جوان ہو۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیہ، جلد37، صفحہ359، مطبوعہ وزارتِ اوقاف، کویت)

   مصافحہ کے احکامات عمر اور طبعی کیفیات کی بنا پر مختلف ہیں۔ فقہائے کرام نے اُن کی تفصیل بیان فرمائی ہے۔ لیکن فی زمانہ حالات کی ابتری کسی پر مخفی نہیں، لہذا بہتر ہے کہ عورت اور مرد کے مابین جائز مصافحہ کی صورت میں بھی احتیاط ہی اختیار کی جائے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم