Agar Muhr Lagane Ki Hajat Na Ho Tu Mard Ke Liye Angothi Pehnne Ka Hukum

اگر مُہر لگانے کی حاجت نہ ہو ،تو مرد کے لیے انگوٹھی پہننے کا حکم ؟

مجیب: مفتی ابوالحسن محمد ھاشم خان عطاری

فتوی نمبر:45

تاریخ اجراء: 24ذو القعدۃ الحرام1435ھ20ستمبر2014ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ مرد کو کونسی انگوٹھی پہننے کی شریعت میں اجازت ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مردکو چاندی کی مردانہ وضع والی ایک انگوٹھی جس کا وزن ساڑھے چار ماشے سے کم ہو اور نگینے والی ہو اور نگینہ بھی ایک ہی لگا ہو پہننے کی شریعت میں اجازت ہے لیکن جس کو مہر لگانے کی حاجت نہیں پڑتی اس کے لیے افضل یہ ہے کہ نہ پہنے ۔ سنن ابی داود ،سنن ترمذی اور سنن نسائی میں ہےواللفظ للاول :’’عن عبداللہ بن بریدۃ عن ابیہ ان رجلاً جاء الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم وعلیہ خاتم من شبہ فقال لہ مالی اجد منک ریح الاصنام فطرحہ ثم جاء وعلیہ خاتم من حدید فقال مالی اری علیک حلیۃ اھل النار فطرحہ فقال یا رسول   اللہ من ای شیء اتخذ ہ قال اتخذہ من ورق ولا تتمہ مثقالا‘‘ ترجمہ:حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص پیتل کی انگوٹھی پہنے ہوئے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیابات ہے تم سے بت کی بو آتی ہے ؟ انہوں نے وہ انگوٹھی پھینک دی ، پھر لوہے کی انگوٹھی پہن کر آئے ، فرمایا کیا بات ہے تم جہنمیوں کا زیور پہنے ہوئے ہو؟ اسے بھی پھینک دیا اور عرض کی یارسول اللہ صلی علیہ وسلم کس چیز کی انگوٹھی پہنوں ؟ فرمایا چاندی کی اور ایک مثقال پورانہ کرو( یعنی ساڑھے چار ماشہ سے کم کی ہو)۔(ابو داود ، کتاب الخاتم، باب ماجاء فی خاتم الحدید، جلد2،صفحہ228،مطبوعہ لاھور)

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ ردالمحتار میں فرماتے ہیں:’’انما یجوزالتختم بالفضۃ لو علی ھیأۃ خاتم الرجال اما لولہ فصان او اکثر حرم‘‘ترجمہ:چاندی کی انگوٹھی پہننا جائزہے بشرطیکہ مردانہ انگوٹھیوں کی شکل وصورت پرہواگردویازیادہ نگینے ہوں توحرام ہے۔(ردالمحتار کتاب الحظر والاباحۃ ،فصل فی اللبس ،جلد9،صفحہ597،مطبوعہ کوئٹہ)

   الاختیار لتعلیل المختار میں ہے’’ثم التختم سنۃ لمن یحتاج الیہ کالسلطان والقاضی ومن فی معناھما ومن لا حاجۃ الیہ فترکہ افضل ‘‘ترجمہ: پھر انگوٹھی پہننا اس کے لیے سنت ہے جسے اس کی ضرورت ہو جیسے بادشاہ اور قاضی اور جو ان دونوں کے معنی میں ہو( یعنی جس کو مہر لگا نے کی ضرورت پڑتی ہو )اور جس کو مہر لگانے کی حاجت نہ ہو اس کے لیے نہ پہننا افضل ہے ۔(الاختیار لتعلیل المختار،فصل استعمال الحریر والذھب ،جلد4،صفحہ1 59، مطبوعہ بیروت)

   امام اہلسنت مجدددین وملت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’شرعاًچاندی کی ایک انگوٹھی ایک نگ کی وزن میں ساڑھے چار ماشے سے کم ہو پہننا جائز ہے اگرچہ بے حاجت مہر اس کا ترک افضل اور مہر کی غرض سے خالی جواز نہیں بلکہ سنت۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد22،صفحہ141،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم