Afiyoon Wali Medicine Khane Ka Hukum

اگردوا میں افیون ملی ہوئی ہو تواس دوا کے استعمال کا حکم

مجیب: سید مسعود علی عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-109

تاریخ اجراء: 09  جمادی الاخریٰ 1443 ھ/13 جنوری 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی دوا میں افیون ملی ہوتو اس کے استعمال کاکیا حکم ہے؟ 

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    افیون کھانا،  جائزنہیں لیکن اگر دوا میں اتنی تھوڑی ملائی جائےکہ اس کےکھانےسےحواس یا عقل پراثرنہ ہو تو اس دوا کا استعمال جائز ہے   مگر بچنابہترہےکیونکہ یہ معدےکےلیےنقصان دہ ہے۔

فتاویٰ امجدیہ میں ہے:’’افیون کا کھانا، ناجائز،مگر جبکہ دوا میں اتنی قلیل ملائی گئی کہ اس دوا کے کھانےسے حواس پر اثر نہ ہو تو جائز ہے۔‘‘(فتاویٰ امجدیہ،جلد3،صفحہ 182، مکتبہ رضویہ کراچی)

    فتاویٰ رضویہ میں ہے:’’اگردوا کے لئے کسی مرکب میں افیون یابھنگ یا چرس کا اتنا جزڈالاجائے جس کا عقل پر اصلاً اثرنہ ہوحرج نہیں، بلکہ افیون میں اس سے بھی بچنا چاہئے کہ اس خبیث کا اثر ہے کہ معدے میں سوراخ کردیتی ہے جوافیون کے سواکسی بلاسے نہیں بھرتے توخواہی نخواہی بڑھانی  پڑتی ہے۔والعیاذباﷲ تعالیٰ۔‘‘(فتاویٰ رضویہ،جلد25 ،صفحہ213، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم