جمعرات کے دن اہتمام کے ساتھ دعا کرنے کا حکم

مجیب:مولانا نوید چشتی صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Pin-6303

تاریخ اجراء:02محرم الحرام1441ھ02ستمبر2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ جمعرات کے دن یا رات کو دعا مانگنا کیسا ہے؟ ہر ہفتے میں جمعرات کے ہی دن کو خاص کر کے ، دن  مقرر کر کے دعا مانگنا کیسا ہے؟کیا حدیث پاک میں جمعرات کے دن کی کوئی خصوصیت ہے؟

سائل: افتخا احمد عطاری (چکوٹھی، جہلم ویلی، کشمیر)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    آپ کے سوال میں یہ وضاحت نہیں کہ جمعرات کے دن یا رات کو دعا سے آپ کی مراد مطلقاً اس دن کو دعا مانگنا ہے یا ان علاقوں میں جمعرات کے دن مغرب سے پہلے یا بعد اپنے فوت شدہ مسلمان عزیزوں کے لیے جو دعا کی جاتی ہے ، وہ مراد ہے۔

    بہر حال جو مطلق دعا ہے ، وہ ممنوعہ اوقات کے علاوہ کسی بھی وقت اور کسی بھی دن جائز ہے، بلکہ دعا مانگنے کا حکم قرآن مجید فرقان حمید میں کئی مقامات پر موجود ہےاور اس میں اپنی آسانی اور یاد دہانی کے لیے کوئی اگر دعا کے لیے کوئی وقت مخصوص کر لیتا ہے ، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، جبکہ اس وقت کو لازم یا ضروری نہ سمجھے اور مطلق دعا کے لیے جمعرات کے دن کی کوئی خاص فضیلت معلوم نہیں۔

    اور اگر آپ کے سوال میں جمعرات کے دن دعا سے مراد وہ دعا ہے ، جو ان علاقوں کے مسلمانوں میں رائج ہے، جس میں وہ اہتمام کے ساتھ ہر جمعرات کو مغرب سے پہلے یا بعد اپنے فوت شدہ اعزا و اقرباء کے لیے دعا کرتے ہیں، تو اس کے متعلق عرض ہے کہ کسی بھی مسلمان کے لیے دعا کرنا اور اس کونیک اعمال کا ایصال ثواب کرنا ہر دن اور ہر تاریخ میں جائز و باعث اجر وثواب ہے اور بالخصوص اپنے والدین، عزیز و اقارب اور گھر سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے دعا کرنا تو بہت زیادہ اجر و ثواب کا کام ہے اور یہ عمل قرآن پا ک کی آیات اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال سے ثابت ہے۔آسانی اور یاد دہانی کے لیے دن مقرر کرنا بھی جائز ہے، جبکہ اس مقرر کرنے کو شرعاً لازم نہ سمجھا جائے ۔ نیز جمعرات کو ایصال ثواب کرنا تو زیادہ پسندیدہ ہے کہ احادیث مبارکہ سے یہ ثابت ہے کہ مرنے والوں کی روحیں جمعرات کو اپنے گھروں میں آتی ہیں اور اپنے عزیزوں کو پکار پکار کر صدقہ اور دعا کے لیے فریاد کرتی ہیں۔

مطلق دعا کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے:﴿ اُجِیۡبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ﴾ ترجمہ کنز الایمان: دعا قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارے۔

(پارہ 2، سورۃ البقرۃ2، آیت186)

    ایک اور مقام پرارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ اُدْعُوۡنِیۡۤ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ﴾ ترجمۂ کنز الایمان: مجھ سے دعا کرو، میں قبول کروں گا۔

(پارہ 24، سورۃ المؤمن40، آیت60)

    پہلے گزرے ہوئے مسلمانوں کے دعا کرنے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَ الَّذِیۡنَ جَآءُوۡا مِنۡۢ بَعْدِہِمْ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیۡنَ سَبَقُوۡنَا بِالْاِیۡمَانِ  ﴾ ترجمہ کنز الایمان: اور وہ جو ان کے بعد آئے، عرض کرتے ہیں: اے ہمارے رب ! ہمیں بخش دے، اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے۔

(پارہ 28 ، سورۃ الحشر59، آیت10)

    اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے:”ہر مسلمان کو چاہیے کہ صرف اپنے لیے دعا نہ کرے بلکہ اپنے بزرگوں کے لیے بھی دعا کرے ۔ “

(صراط الجنان فی نفسیر القرآن، جلد 10، صفحہ 80، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

    سیدی اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:”اموات مسلمین کو ایصال ثواب بے قید تاریخ خواہ بحفظ تاریخ معین مثلاروز وفات جبکہ اس کا التزام بنظر تذکیر وغیرہ مقاصد صحیحہ ہو ، نہ اس خیال جاہلانہ سے کہ تعیین شرعا ضروریاوصول ثواب اسی میں محصور۔ “

(فتاوی رضویہ، جلد 9،صفحہ421،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:”خاتمۃ المحدثین شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ شرح مشکوٰۃ شریف باب زیارۃ القبور میں فرماتے ہیں:”مستحب است کہ تصدق کردہ شود از میت بعد از رفتن او ز عالم تا ہفت روز تصدق از میت نفع می کند او را بے خلاف میان اہل علم وارد شدہ است در آں احادیث صحیحہ خصوصاً   آب، و بعضے از علماء گفتہ اند کہ نمی رسد بہ میت را مگر صدقہ و دعا، و در بعض روایات آمدہ است کہ روح میت می آید خانۂ خود را شب جمعہ، پس نظر می کند کہ تصدق می کنند از وے یانہ“ میت کے دنیا سے جانے کے بعد سات دن تک اس کی طرف سے صدقہ کرنا مستحب ہے، میت کی طرف سے صدقہ اس کے لئے نفع بخش ہو تا ہے، اس میں اہل علم کاکوئی اختلاف نہیں، اس بارے میں صحیح حدیثیں وارد ہیں، خصوصا پانی صدقہ کرنے کے بارے میں اوربعض علماء کاقول ہے کہ میت کو صرف صدقہ اوردعا کاثواب پہنچتا ہےاوربعض روایات میں آیا ہے کہ روح شبِ جمعہ کو اپنے گھر آتی ہے اور انتظار کرتی ہے کہ اس کی طرف سے صدقہ کرتے ہیں یا نہیں۔

    شیخ الاسلام ’’کشف الغطاء عما لزم للموتٰی علی الأحیاء‘‘فصل ہشتم میں فرماتے ہیں:”درغرائب و خزانہ نقل کردہ کہ ارواح مؤمنین می آیند خانہ ہائے خود را ہر شب جمعہ و روز عید و روز عاشورہ و شب برات، پس ایستادہ می شوند بیرون خانہائے خود و ندامی کند ہر یکے بآواز بلند اندوہ گین اے اہل و اولاد من و نزدیکان من مہربانی کنید بر ما بصدقہ“ غرائب اورخزانہ میں منقول ہے کہ مومنین کی روحیں ہر شب جمعہ ،روز عید ، روز عاشوراء اور شب براءت کو اپنے گھر آکر باہر کھڑی رہتی ہیں اور ہر روح غمناک بلند آواز سے نداکرتی ہے کہ اے میرے گھر والو! اے میری اولاد ! اے میرے قرابت دارو!صدقہ کرکے ہم پرمہربانی کرو“

(فتاوی رضویہ، جلد 9،ص 649 ،650 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

    سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ مزید ایک مقام پر فرماتے ہیں:”خزانۃ الروایات میں ہے:”عن بعض العلماء المحققین أن الأرواح تتخلص لیلۃ الجمعۃ و تنتش فجاؤا إلی مقابرھم ثم جاؤا فی بیوتھم“بعض علماء محققین سے مروی ہے کہ روحیں شب جمعہ چھٹی پاتی اور پھیلتی جاتی ہیں، پہلے اپنی قبروں پر آتی ہیں پھر اپنے گھروں میں۔

دستور القضاۃ مستند صاحب مائۃمسائل میں فتاوی امام نسفی سے ہے:”إن أرواح المؤمنین یأتون فی کل لیلۃ الجمعۃ و یوم الجمعۃ فیقومون بفناء بیوتھم ثم ینادی کل واحد منھم بصوت حزین یا أھلی و یا أولادی و یا أقربائی اعطفوا علینا بالصدقۃ و اذکرونا و لا تنسونا و ارحمونا فی غربتنا الخ“ بے شک مسلمانوں کی روحیں ہر جمعہ کی رات اور جمعہ کے دن اپنے گھر آتی ہیں اور دروازے کے پاس کھڑی ہو کردرد ناک آواز سے پکارتی ہیں کہ اے میرے گھر والو!اے میرے بچو! اے میرے عزیزو! ہم پر صدقہ سے مہر بانی کرو ، ہمیں یاد کرو ، بھول نہ جاؤ ۔ ہماری غریبی میں ہم پر ترس کھاؤ۔

    نیز خزانۃ الروایات مستند صاحب مائۃ مسائل میں ہے:”عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما إذا کان یوم عید أو یوم جمعۃ أو یوم عاشوراء و لیلۃ النصف من الشعبان تأتی أرواح الأموات و یقومون علیٰ أبواب بیوتھم فیقولون ھل من أحد یذکرنا ھل من أحد یترحم علینا ھل من أحد یذکر غربتنا الحدیث“ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے، جب عید یا جمعہ یا عاشورے کا دن یا شب براءت ہوتی ہے، اموات کی روحیں آکر اپنے گھروں کے دروازوں پر کھڑی ہوتی اور کہتی ہیں: ہے کوئی کہ ہمیں یاد کرے؟ہے کوئی کہ ہم پر ترس کھائے؟ہے کوئی کہ ہماری غربت کی یاد دلائے؟“

(فتاوی رضویہ، جلد ،9ص،653 رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم