عورت کو نامحرم کا خون چڑھانا کیسا؟

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ محرم الحرام1441ھ

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی اسلامی بہن کو خون کی ضرورت ہو تو کیا نامحرم مرد کا خون انہیں چڑھایا جاسکتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    شرعی نقطۂ نظر سے خون،کسی قریبی محرم رشتہ دار کا ہو یا غیرمحرم کا،نجس و ناپاک ہے،اس کا جسم میں چڑھانا ،عام حالت میں ناجائز و حرام ہے ۔ ہاں ضرورت و شرعی حاجت کا تحقق ہو تو اس صورت میں اب فقہائے کرام کی اکثریت نے خون چڑھانے کی اجازت دی ہے،لہٰذا جن صورتوں میں شرعاً خون چڑھانے کی اجازت ہے،ان صورتوں میں مسلم غیرمسلم، محرم یا غیر محرم، سب کا خون چڑھایا جا سکتا ہے۔جائز ہے ہاں غیرمسلم کے خون سے بچنا مناسب ہے، مسلمان کا خون میسّر ہو تو غیرمسلم کا خون نہ لیا جائے۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم