بچّوں کی پیشانی پر سیاہ ٹیکا لگانا

مجیب:  مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضان مدینہ رمضان المبارک 1440ھ

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ عوام میں یہ مشہور ہے کہ بچّوں کی پیشانی پر سیاہ (Black) نقطہ جسے ٹیکا بھی کہتے ہیں لگانے سے ان کو نظرِ بد نہیں لگتی۔ تو کیا پیشانی پر سیاہ ٹیکا لگانا شرعاً جائز ہے؟

(سائل: عبد القادر،میر پور ماتھیلو، باب الاسلام سندھ)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    بچّوں کو نظرِ بد سے محفوظ رکھنے کے لئے پیشانی، ٹھوڑی یا گال پر سیاہ ٹیکا لگانا شرعاً جائز ہے۔یہ نظرِ بد سے بچنے کی تدبیر اور ٹوٹکا ہے اور ہر وہ ٹوٹکا جو شریعت کے خلاف نہ ہو اور تجربہ سے مفید ہونا اس کا ثابت ہو جائز ہوتا ہے۔ جبکہ اس طرح کا نظرِ بد سے بچانے کے لئے سیاہ نقطہ ٹھوڑی میں لگانے کا ثبوت تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حکم سے بھی ثابت ہے۔ لہٰذا اس میں کسی قسم کا حرج نہیں، جائز ہے۔

    علامہ علی بن سلطان محمد قاری علیہ الرحمۃ مرقاۃ میں فرماتے ہیں ”فی شرح السنۃ روی ان عثمان رضی اللہ عنہ رأی صبیاً ملیحا فقال دسموا نونتہ کیلا تصیبہ العین۔ و معنی دسموا سودوا، والنونۃ النقرۃ التی تکون فی ذقن الصبی الصغیر یعنی شرح السنّۃمیں حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے ایک خوبصورت بچّہ دیکھا تو فرمایا اس کی ٹھوڑی میں سیاہ نقطہ یا ٹیکہ لگادو تاکہ نظر نہ لگے۔ (اس روایت میں ) دَسِّمُوْا کا معنی ہے سیاہ کرنا اور اَلنُّوْنَۃ سے مراد وہ چھوٹا نشان ہے جو چھوٹےبچہ کی ٹھوڑی پر لگایا جاتا ہے۔(مرقاۃ المفاتیح، 8/ 305،تحت الحدیث:4531)

    مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنان مراٰۃ المناجیح میں فرماتے ہیں ”عوام میں مشہور ٹوٹکے اگر خلافِ شرع نہ ہوں تو ان کا بند کرنا ضروری نہیں۔ جیسے دواؤں میں نقل (شریعت کی منقول دلیل) کی ضرورت نہیں، تجربہ کافی ہے۔ ایسے ہی دعاؤں اور ایسے ٹوٹکوں میں نقل (شریعت کی منقول دلیل) ضروری نہیں۔ خلافِ شرع نہ ہوں تو درست ہیں۔اگرچہ ماثور دعائیں افضل ہیں۔“(مراٰۃ المناجیح، 6/224ملخصا)

    مزید ایک حدیث شریف کے تحت شرح میں فرماتے ہیں: ”خیال رہے کہ جب دواؤں میں ہماری عقل کام نہیں کرتی تو ان ٹوٹکوں میں کام نہ کرے گی، لہٰذا ان اعمال پر اعتراض کرنا بےجا ہے۔“(مراٰۃ المناجیح، 6/245)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم