قبر پر قبر بنانا

مجیب:مولانا آصف صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی ہاشم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Lar-10242

تاریخ اجراء:20ربیع الاخر1442 ھ/06دسمبر2020ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتےہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک جگہ قدیم وقف قبرستان ہے۔جوقبور(قبروں)سےمکمل بھرچکاہے۔کیااس قبرستان میں تمام قبورپرپانچ، چھ فٹ مٹی ڈال کراس پرنئی قبریں بناسکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    صورت مسئولہ میں قبورِمسلمین پرپانچ ،چھ فٹ مٹی ڈال کراس پرجدیدقبور بنانا،ناجائزوحرام ہےکہ یہ   قبورمسلمین  کی سخت بے حرمتی اوران کے لیے تکلیف کا باعث ہے، کہ جس بات سے زندوں کو ایذا پہنچتی ہے مُردے بھی اس سے تکلیف پاتے ہیں ۔جب قبرپرچلنا،پاؤں رکھنا،اس پربیٹھنا،اس  پرراستہ بنانا ، جائزنہیں، تواس پرمستقل مکمل قبربناناکیونکرجائزہوسکتاہے؟اس میں مزیدکئی خرابیاں بھی ہیں کہ مٹی ڈالنے کے لیے اس پرٹریکٹر،ٹرالی  یادیگرباربرداری والی گاڑیوں یاپیدل اٹھاکر مٹی ڈالناہوگی،اوپرنئی قبریں کھودتے ہوئے ،جنازہ لاتے ہوئےظن غالب ہے کہ قبورپرچلنا،پھرناراستہ بناناوغیرہ پایاجائے اورشرعایہ افعال سخت حرام ہیں کہ اس میں مردوں کی توہین اورایذاہے۔

    قبرپربیٹھنےکےحوالے سےمسلم،ابوداؤد،نسائی اور ابن ماجہ کی حدیث پاک میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:”لأن یجلس أحدکم علی جمرۃ فتحرق ثیابہ،فتخلص إلی جلدہ،خیرلہ من أن یجلس علی قبر“ یعنی: تم میں سے کوئی  آگ کی چنگاری پر بیٹھے یہاں تک کہ وہ اس کے کپڑے جلا کر جلد تک پہنچ جائے، یہ  اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی قبر پر بیٹھے۔

(صحیح مسلم، جلد2،صفحہ667،دار احیاء التراث العربی ،بیروت)

    مسلمان کی قبرپرچلنے کے بارے حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی اکرم  صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:”لان امشی علی جمرۃ اوسیف احب الی من ان امشی علی  القبر “یعنی میں انگارے یا تلوار پر چلوں یہ میرے نزدیک اس بات سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ میں (کسی مسلمان کی ) قبر پر چلوں۔

 (سنن ابن ماجہ،جلد1،صفحہ499، دار إحياء الكتب العربية)

    الاختيار لتعليل المختار میں ہے:”(ويكره وطء القبر والجلوس والنوم عليه) لأنه عليه الصلاة والسلام نهى عن ذلك، وفيه إهانة به“یعنی :قبرپرپاؤں رکھنا،اس پربیٹھنااورسونامکروہ ہے،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایااوراس میں اس کی اہانت  ہے۔

( الاختيار لتعليل المختار،باب الجنائز،جلد1،صفحہ97، طبعة الحلبي ، القاهرة)

    شیخ الاسلام والمسلمین ،اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”جب حضوراقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے قبر پر بیٹھنے اور اس سے تکیہ لگانے اور مقابر میں جوتا پہن کر چلنے والوں کو منع فرمایا اور علماء نے اس خیال سے کہ قبور پر پاؤں نہ پڑے ، گورستان میں جو راستہ جدید نکالا گیا ہو، اس میں چلنے کو حرام بتایا او رحکم دیا کہ قبر پر پاؤں نہ رکھیں ،بلکہ اس کے پاس نہ سوئیں، سنت یہ ہے کہ زیارت میں بھی وہاں نہ بیٹھیں ،بلکہ بہتریہ ہے کہ بلحاظِ ادب پاس بھی نہ جائیں، دور ہی سے زیارت کرآئیں ۔ اور تصریح فرمائی کہ مسلمان زندہ ومردہ کی عزت برابر ہے او رجس بات سے زندوں کو ایذا پہنچتی ہے مُردے بھی اس سے تکلیف پاتے ہیں ا ور انہیں تکلیف دینا حرام ، تو خود ظاہر ہوا کہ یہ فعل مذکور فی السوال کس قدر بے ادبی و گستاخی وباعث گناہ اور استحقاق عذاب ہے۔ جب مکان سکونت بنایا گیا تو چلنا پھرنا، بیٹھنا لیٹنا، قبورکو پاؤں سے روندنا ، ان پر پاخانہ ، پیشاب ، جماع سب ہی کچھ ہوگا اور کوئی دقیقہ بے حیائی اور اموات مسلمین کی ایذا رسانی کا باقی نہ رہے گا۔‘‘

 (فتاوٰی رضویہ ،جلد9، صفحہ453،رضافاؤنڈیشن ،لاھور)

    امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں :’’قبور مسلمین پر چلنا جائز نہیں ،بیٹھنا جائز نہیں ،ان پر پاؤں رکھنا جائز نہیں، یہاں تک کہ ائمہ نے تصریح فرمائی کہ قبرستان میں نیا راستہ پید اہو اس میں چلنا حرام ہے ۔‘‘

 (فتاویٰ رضویہ ،جلد9، صفحہ480، رضافاؤنڈیشن، لاھور)

    فتاوی رضویہ شریف میں قبروں کے مسمار کرکے مسجدبنانے کے حوالے سے امام اہلسنت اعلیٰ حضرت الشاہ احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمٰن تحریرفرماتے ہیں:”یہ حرکت شنیعہ ہمارے ائمہ کے اجماع سے ناجائز و حرام ہے۔ توہین قبور مسلمین ایک اور قبور پر نماز کا حرام ہونا دو۔کہاں قبر کی بلندی کہ حدِ شرعی سے زائد ہو اس کے دور کرنے کا حکم او رکہاں یہ کہ قبور مسلمین مسمار کرکے ان پر چلیں، اموات کو ایذا دیں۔“

(فتاوی رضویہ ،جلد9،صفحہ428،رضا فاونڈیشن ،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم